ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
20 رجب المرجب 1335 ھ بروز شنبہ (ملفوظ 632) اہل دین کے سامنے بے ہودگی : ایک صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے جو دھوتی باندھے ہوئے تھے ان سے حضرت نے دریافت فرمایا کہ کس غرض سے آناہوا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں صرف ملنے آیا ہوں ۔ حضرت نے فرمایا کچھ کہنا ہے تو کہو ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ کہنا نہیں پھر بعد ظہر حاضر خدمت ہو کر کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ اس وقت میں نے صاف کہہ دیا تھا کہ کچھ اور کہنا ہے تین مرتبہ پوچھا ہر فعہ یہی کہا کہ کچھ نہیں کہنا ہے میری سجمھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک شخص جس سے خط وکتابت اور جان پہچان نہ ہو وہ اتنی دور سے محض محبت اور عشق میں بھاگا ہوا یہاں آوے اوراس شخص کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے یہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ ان صاحب نے کہا کہ میں گاؤں کا آدمی ہوں فرمایا کہ یہ خوب سیکھا ہے کہ ہم گاؤں کے ہیں کلکڑ کے سامنے کوئی ایسی بیہودگی نہیں کرتا ۔ ملا نے ہی مشق کے لیے رہ گئے ہیں دراصل اہل دین کی وقعت نہیں ہے لوگوں کے قلب میں اس وجہ سے یہ بے پرواہی کی جاتی ہے کچہری میں جاکر سارے لکھنو اور دلی کے ہی بن جاتے ہیں پھر حضرت نے ایک خادم کے ذریعہ سے معلوم کرایا کہ وہ کیا کہتے ہیں انہوں نے نذر پیش کرنے کو کہا ۔ فرمایا کہ یہ طریقہ نذر دینے کا نہیں ہے پھر انہوں نے کہا کہ مجھے پھر آنے کی اجازت دی جاوے ۔ فرمایا کہ تین شرطوں کے ساتھ اجازت دیتا ہوں ۔ (1) اپنی دینی حالت درست کرو ۔ اور یہ جودھوتی باندھے ہوئے ہو اس کو آگ لگاؤ ۔ (2) جب تک پانچ یا چھ ماہ تک خط میرے پاس نہ بھیج لو تب تک میرے پاس نہ آؤ ۔ (3) نذر دینے کا کبھی ارادہ نہ کرنا اگر اس ارادے سے آؤگے تو مجھ کو کلفت ہوگی ۔ اس پر وہ صاحب مصافحہ کرکے چلے گئے ۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ ایسا بڑا شوق تھا اور فقط دینا ہی مقصود تھا تو منی آرڈر کرکے بھیج دیتے ان صاحب نے چلتے وقت یہ کہا تھا کہ غلام سے خطا ہوئی فرمایا کہ غلام ایسی گستاخی کر ہی نہیں سکتا ۔ تم غلام نہیں ہو بلکہ بڑے آزاد آدمی ہوجو آکر ایسی تکلیف دی ۔ یہ ایسی مثال ہے کہ رؤسانو کرکے اول تو تپھڑ رسید کرتے ہیں اور پھر کچھ دیتے ہیں کہ ذر اس کا دل ٹھنڈا ہوجاؤے اس طرح اول آپ نے تکلیف دی ۔ پھر نذرانہ سے اس کا تدارک کیا ۔ پیرزادوں نے بگاڑا ہے ان لوگوں کو ۔ مگر تھوڑی سی خطا ان کی بھی ہے کہ حکام دنیوی کے ساتھ