ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
ہی قصے سنایا کرتے ہیں مگر وہ طالب بڑے گستاخ تھے جب مولانا کہیں چلے جاتے تو وہ مولانا کی درسگاہ پر جا بیٹھتے تھے اور پیر صاحب مولانا سیداحمد صاحب مدرس ثانی کی طرف کو کرتے تھے (ملفوظ نہایت عبرت خیز حکایت : فرمایا کہ ایک حکایت نہایت عبرت خیز ہے وہ یہ ہے کہ ایک موضع میں کسی گزرنے والے مسلمان مسافر نے وہاں کے لوگوں سے پانی مانگا دیکھا کہ وہاں کے مسلمانوں نے سور پال رکھے ہیں مسافر نے انکا مذہب پوچھا کہنے لگے ہم نہیں جانتے البتہ ہمارے یہاں ایک کتاب ہے انہوں نے کہا دکھلاؤں ان مسلمانوں نے ایک کتاب دکھلائی جس پر گوبر چھڑک رکھا تھا دیکھا تو قرآن مجید تھا ۔ اس قرآن مجید کے آخر میں کسی کے قلم کے لکھے ہوئےکچھ حالات لکھے تھے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ کوئی نواب تھے انہیں بادشاہ کی طرف سے بوجہ عتاب گاؤں میں رہنے کا حکم ہوا ۔ انہوں نے بادشاہ سے بہت عذر کیا مگر بادشاہ نے منظور نہ کیا اور یہ کہا کہ ہم نے تمہیں یہ سخت سزا اس لیے دی ہے کہ گاؤں میں رہنے سے بوجہ عدم حصول علم تمہاری نسل جاہل ہوجائے گی چنانچہ ان نواب صاحب نے خود ہی لکھا تھا کہ میری نسل بوجہ جہل کے ضرور بگڑ جائے گی کیونکہ یہاں گاؤں میں تحصیل علم کا کچھ انتظام نہیں وہ نواب صاحب قوم کے سید تھے دیکھیے جہل نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ (ملفوظ 367) حد درجہ کی مضبوطی : فرمایا کہ منجھولی کے راجہ کی بابت یہ سنا ہے کہ بڑا دلیر تھا اس کے کمرہ میں آگ لگی نکلنے کی جگہ نہ تھی کسی کو پکارا نہیں ۔ بس پلنگ پر لیٹ گیا اور جل کر مر گیا پھر فرمایا کہ اتنی مضبوطی ہے تو جہالت مگر ہے مضبوطی ۔ 27 جمادی الاول 35 ھ بروز پنجشنبہ (ملفوظ 368) ذکر و شغل کا بتلائے بغیر فائدہ نظر آگیا ۔ ایک صاحب نے خط میں لکھا تھا کہ میں عرصہ سے ذکر وشغل کرتا ہوں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔ میں نے انہیں لکھا کہ تم فائدہ کس کو سمجھتے ہو کہ وہ حاصل نہیں ہوا ۔ انہوں نے پھر جواب میں لکھا کہ میری تحریر کا اعتبار نہیں ہے جو اس وقت دل میں آیا یوں ہی لکھ دیا