ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
پاوے ۔ آجکل لوگوں پر نیا مذاق غالب ہوگیا ہے اس مذاق کے لوگ علوم میں غبی ہوتے ہیں ہندی کی چندی کرنے سے سمجھتے ہیں اور جواب ان کے نزدیک وہی ہے جو مخاطب کے مذاق کے موافق ہو ۔ گو تحقیق کے خلاف ہو ۔ چنانچہ ایک صاحب اپنا قصہ بیان کرتے تھے کہ ان سے کسی نے ڈاڑھی رکھنے کا ثبوت قرآن مجید سے مانگا تو انہوں نے یہ آیت لا تاخذ بلحیتی الایۃ ثبوت میں پیش کی اور کہا کہ اگر حضرت ہارون علیہ السلام کے ڈاڑھی نہ ہوتی تو موسی علیہ السلام پکڑتے کیسے میں نے کہا کہ صاحب اس سے تو ڈاڑھی کا وجوہ ثابت ہوا ڈاڑھی رکھنے کا وجوب کہاں ثابت ہوا ۔ ڈاڑھی کے وجوب کے ثبوت میں اتو اپنی ڈاڑھی دکھا ہی کافی تھا ۔ وہ بولے کہ اجی اس شخص کو اتنی عقل تھی ۔ حضرت والا نے فرمایا کہ بھائی تمہارے دلیری ہے ہمیں تو ایسی بات کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ جس کو خود اپنے دل میں غلط سمجھ رہے ہوں ۔ بس یہی فرق ہے طالب علم اور نئے مذاق والوں میں ۔ (ملفوظ 609 ) زمانہ تصنیف تفسیر کی برکت : ایک صاحب نے حضرت والا سے تفسیر بیان القر آن کے متعلق کچھ باتیں دریافت کیں کہ اس کی کتنی جلدیں ہیں اور پوری طبع ہوچکی ہے یا ابھی کچھ باقی ہے ان صاحب کے سوالات کے جوابات دینے کے بعد فرمایا کہ میں زمانہ تصنیف تفسیر میں بالکل بیمار نہیں ہوا ۔ کان بھی گرم نہ ہوا اس زمانہ میں یہاں طاعون بہت تھا ۔ میں اللہ سے دعا مانگتا تھا کہ اے اللہ میں تفسیر لکھنے سے پہلے نہ مروں ۔ ( ملفوظ 610 ) فہم ہو تو الفاظ قرآن میں غور کافی ہے : فرمایا کہ مولانا محمد قاسم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں ہی غور کرنا چاہیے تو مطلب صاف ہے مگر مولانا کا سافہم بھی تو ہو قرآن مجید کے الفاظ کافی ہیں باہر جانے کی ضروت نہیں ۔ ( ملفوظ 611 ) اہل یورپ تحقیقات تصوف میں عاجز رہ گئے: فرمایا کہ ایک شخص نے میرے سامنے ایک جاہل فقیر سے سوال کیا کہ مجزوب اور سالک میں کون افضل ہے اس نے باوجود جاہل ہونے کے اچھا جواب دیا کہ ہم یہ تو کچھ جانتے نہیں ہاں اتنا جانتے ہیں کہ شریعت میں شراب پینے کی ممانعت ہے کیونکہ وہ مزیل عقل