ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
متعارف کا منشاء ماخز ایک ہے بری جگہ صرف ہوتا ہے ایک اچھی جگہ صرف کی جاتی ہے ۔ صرف اتنا ہی فرق ہے اور یہ مشق پر موقوف ہے اس لیے مشق کی جاتی ہے کہ دوسروں پر نسبت کا القاء کریں گے بعض مشائخ کے یہاں اس سے بہت کام لیا جاتا ہے مگر اس کا نفع باقی نہیں رہتا ۔ طالب کیفیت کو نفع سمجھ کر اس کو کافی جانتا ہے اس لیے کام چھوڑ دیتا ہے اس میں چند خلجان ہین اول تو سنت میں منقول نہیں دوسرے اس سے کام میں اکثر کو سستی ہونے لگتی ہے پھر فرمایا کہ اگر خود اثر پڑے ۔ دوسرے پر اس کا مضائقہ نہیں ۔ باقی خود توجہ کرنے میں تو اس وقت کامل طور پر کدا کا بھی ذکر نہیں رہتا قلب میں اور یوں معمولی بات چیت مین بھی توجہ الی اللہ نہیں ہوتی ۔ مگر یہ اس سے اشد ہے کیونکہ اس میں قلب کو قصدا خالی کیا جاتا ہے اور خدا کی طرف سے توجہ ہٹانا گیرت کی بات معلوم ہوتی ہے ہاں محبت اور تعلق رکھنے کو کوئی منع نہیں کرتا ۔ لیکن توجہ متعارف میں تو تھوڑی دیر کے لیے تو یہ تعلق ایسا ہوجاتا ہے کہ خدا کے تعلق پر بھی غالب آجاتا ہے ۔ حلقہ متعارف میں یہی ہوتا ہے اور اگر قلب میں کیفیت ہے اس کا تو خود ہی بقدر ضرورت اثر ہوگا ۔ یہ ضروری نہیں کہ ایصال اثر کا اہتمام بھی ہو ۔ البتہ توجہ بلا قصد کے ساتھ یہ حکم متعلق نہیں مسنون طریقہ سے اصلاح کی جاؤے ۔ وعظ نصیحت دعا مسنون طریقہ یہی ہے اس کے ساتھ اضطراری طور پر اس کا اثر پہنچ رہا ہے اس سے انکار نہیں بعض شخصیوں میں فطری طور پر یہ ہوتی ہے انہیں زیادہ اہتمام نہیں ہوتا ۔ بعض لوگ اس توجہ سے ایسے کام لیتے ہیں جو ظاہرا خیر ہیں مگر خود ان کے جواز میں بھی ترددہے مثلا کسی کی طرف کسی مسجد یامدرسہ کی اعانت کے خیال سے متوجہ ہوئے اس پر اثر پڑتا ہے اور وہ اعانت پر مجبور ہوجاتا ہے بعد کو بعض اوقات پچھتاتا بھی ہے وہ شخص اس وقت مغلوب ہوکر حقیقت کو نہیں سمجھتا ۔ بس مجبور ہوجاتا ہے پس یہ مینا ایسا ہی ہے جیسے غصب کرلیا یا شراب پلا کر دستاویز لکھوالی ۔ پھر فرمایا کہ میں توجہ متعارف کو حرام تو نہیں سمجھتا مگر مجھے تو اس سے غیرت اتی ہے کہ توجہ تام حق تعالٰی کا حق ہے وہ اور کی طرف کی جائے ۔ ( ملفوظ 546 ) کچھ لوگ نفع رسانی کےلیے پیدا ہوتے ہیں : فرمایا کہ بعض کو حق تعالٰی نفع رسانی کے لیے پیدا فرماتے ہیں اور بعض کو منتفع ہونے کے لیے جس طرح کہ بعض لوگ جسم کے قوی ہوتے ہیں مگر ان کے اولاد نہیں