ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
باقی بہتر اور افضل یہی ہے کہ ایسے اشخاص کو اجازت طلب کرنے پر منع کردیا جائے اور روک دیا جائے کیونکہ اس اجازت کے وہ اہل نہیں ہیں تو ان سے مخلوق کو ضرور پہنچے گا اور طالب ایسے اشخاص کے پھندے کر اپنے مقصود سے محروم رہیں گے اور مخلوق خدا دھوکہ میں مبتلا ہوگی ۔ ( جامع عفی عنہ) 19 ربیع الاول 35 ھ بروز یک شنبہ ملفوظ 49) نئی روشنی کے لوگوں کا اسلام : ایک صاحب نو مسلم جنہوں نے اپنے آپ کوالہ آباد کا ساکن ظاہر کیا حاضر خدمت حضرت والا ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیا کہ ان کے والد نے جو کہ ہنوز کفر پر قائم ہیں تمام جائیداد اپنی اپنے دوسرے بیٹوں کو جو کافر ہیں دیدی ہے اور ان کو نہ دی اس پر نو مسلم صاحب نے بیر سڑوں وغیرہ سے رائے لی تو ان کو معلوم ہوا کہ ان کو قانونا مل سکتی ہے پھر انہوں نے علماء سے رجوع کیا چنانچہ حضرت والا کی خدمت میں بھی بغرض استمداد حاضر ہوئے ۔ حضرت والا نے فرمایا کہ قانون اسلام کی رو سے اجازت نہیں کہ ُآپ زبردستی اپنے والد کی جائیداد میں سے حصہ لیں آپ کے والد کی چیز ہے انہیں اختیار ہے چاہے جس کو دیں چاہے جس کو نہ دیں آپ کو ملنے کی کوشش بالکل نہ کرنا چاہیے جس اللہ کو راضی کرنے کیلئے آپ نے دین حق یعنی اسلام قبول کیا اب آپ پرایا مال لے کر اسے ناراض کرنا چاہتے ہیں پھر کیا فائدہ ہوا ہم اس میں کسی قسم کی امداد نہیں کرسکتے اس پر اس نو مسلم صاحب نے عرض کیا کہ مل تو سکتی تھی حضرت والا نے فرمایا کہ معلوم ہوتا میری بات آپ کے ذہن میں نہیں آئی ورنہ آپ یہ نہ کہتے کہ مل تو سکتی ہے ایک چور ، چوری کرے اور اس کو پورا یقین ہو کہ میں چوری کے مال پر قابض ہوجاؤں گا تو کیا قانون اس کے واسطے چوری جائز ہوسکتی ہے ہرگز نہیں اس طرح سمجھ لیجئے بیر سڑوں اور وکیلوں نے ان نو مسلم سے کہہ دیا تھا کہ کافروں کا مال جس طرح بھی ہوسکے لینا جائز ہے ۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ ڈکیتی جائز ہے تو یہ بھی جائز ہے قانون اسلام میں یہ بالکل ڈکیتی ہے کیا کوئی ڈاکہ ڈالنے کی اجازت دے سکتا ہے پھر فرمایا کہ نئی روشنی کے لوگوں کا یہ اسلام ہے ان کو احکام اسلامی سے کچھ مطلب نہیں ہے ۔ اس پر قوم کے لیڈر بنتے ہیں ان کو خدا