ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
حکمتیں پوچھ لیجئے ۔ اس وقت معلوم ہوگا کہ ایسے سوال کا کیا اثر ہے ۔ خدا نے ہمیں عمل کے لیے پیدا کیا ہے سوالات کے لیے پیدا نہیں کیا عمل کا طریقہ جب معلوم ہے پھر سوالا ت کی کیا غرض ہے میں یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اور چیزوں کی مثلا نمازوں زوزہ اور حج و زکوۃ سب کی حکمتیں معلوم کرلی ہیں کہ جو کہا جاوے کہ صرف اس اذان کی حکمت باقی رہ گئی ہے وہ معلوم کی جاتی ہے لوگ مولویوں کو سخت بتلاتے ہیں جب سخت بات ہوگی تو اس کا جواب بھی سختی ہی سے دیا جاویگا ۔ کسی بادشاہ کے خلاف معتاد دوسال میں بچہ ہوتا ہو اس سے کوئی اتنا پوچھے کہ تمہارے بیوی کے دو سال میں کیوں بچے ہوتے ہیں ذرا کوئی پوچھ کر تو دیکھے ۔ اس سے کم نہیں خدا سے یہ سوال کرنا ۔ یا کسی دوست سے اس کی بیوی کا نام پوچھے جب اتنی ہمت نہیں تو اس سے بڑے سوال کی کیوں ہمت ہوئی ۔ صحبت نہ ہونے کی خرابی ہے ۔ وظیفوں سے کچھ نہیں ہوتا ۔ صحبت آنکھیں کھلتی ہیں مجھ کو تو یہ بات سخت ناگوار ہوتی ہے جو لوگ مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ فلاں بات کیوں ہے فلاں کیوں میرا تو رونگٹا کھڑا ہوجاتا ہے اس باتوں کا تویہ جواب کافی ہے کہ بس خدا و رسول کا حکم ہے البتہ یہ ثابت کرنا ہمارے ذمہ ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے بس یہ سیدھا طرز ہے مگر مذاق خراب ہوگئے ہیں ۔ بری چیزوں کی برائی قلب میں نہیں رہی ۔ خدا کی عظمت اور قدر مومن کے دل میں پوری ہونی چاہیے ۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ بعض علماء کو حکمتیں خوب معلوم ہیں لیکن چونکہ سائل کو پوچھنے کا منصب نہیں ہے اس لیے جواب نہیں دیا جاتا ہے ۔ مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز ورنہ در مجلس رنداں خبر ے نیست کہ نیست مثلا ہمیں اپنے والدہ اور والدہ کی عمر معلوم ہے مگر کسی کو کیا حق ہے پوچھنے کا ہمیں معلوم ہے ۔ مگر نہیں بتلاتے فضول سوال ہے کیوں بتلادیں ۔اگر خدا کے کاموں کی حکمتیں نہ معلوم ہوں تو کسی ضروری مقصود میں تو کوئی خرابی نہیں پڑتی ۔ نہ کوئی کام ان پر موقوف ہے نماز کے اسراء نہ معلوم ہوں تو کیا اجر کم ملے گا ۔ بلکہ بعض اوقات جن کو اسراء کا علم ہے وہ شاید اسی میں رہ جاویں کہ رکوع کی یہ حکمت ہے سجدہ کی یہ حکمت ہے اور جس کو کچھ نہیں معلوم ہے وہ حکم سمجھ کر عبادت کیے جاویگا ۔ صحابہ نے کبھی یہ سوال نہیں کیے کہ یار سول اللہ ﷺ نماز پانچ وقت کی کیوں ہوئی یا روزے ایک ماہ کے کیوں ہوئے جس بات میں حق