ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
کو مرض سمجھتے ہیں مثلا خیالات کو آنے کو لوگ برا سمجھتے ہیں اور سمجھایا جائے کہ اس سے کچھ حرج نہیں تو سمجھانے سے مانتے نہیں بلکہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ویسے ہی ٹال دیا ہے اس کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی طبیب سے کہے کہ حکیم جی جب میں دھوپ میں چلتا ہوں تو میرا بدن گرم ہوجاتا ہے اور حکیم جی شفقت سے یہ جواب دیں کہ بھائی یہ مرض نہیں ہے مگر وہ کہے کہ نہیں حکیم جی یہ تو مرض ہے ۔ (ملفوظ 210 ) روح و نفس کے زندہ ومردہ ہونے کی علامت : فرمایا کہ جن شخصوں میں ذراسی شوخی ہوتی ہے جس کو عرف میں چحچھورا پن کہتے ہیں وہ نفس کے مردہ اور روح کے زندہ ہوتے ہیں ہنستا بولتا آدمی اچھا ہوتا ہے ۔ متانت مصنوعی روح کے مردہ اور نفس کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ایسے شخصوں میں کبر ہوتا ہے اور شوخ طبیعت میں کبر نہں ہوتا ۔ 9ربیع الثانی 1335ھ بروز جمعہ (ملفوظ 211 ) عظمت خدا وندی کے نہ ہونے کی وجہ سے غلطیاں : فرمایا کہ جب کسی مریض کی طرف سے مایوسی ہوجاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہی کے نام پر پڑا ہوا ہے یعنی ناامیدی میں تو اللہ کی سپرد کرتے ہیں اور جہاں امید ہوتی ہے وہاں اللہ کی سپرد نہیں کرتے خدا کے سامنے سامان واسباب کیا چیز ہیں پھر فرمایا کہ اسی طرح ایک بے ادبی کرتے ہیں کہ کسی واقعہ کہ نامناسب وبے موقعہ قرار دے کر اس کے وقوع کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں کہ اجی خدا تعالٰی کی ذات بے پرواہ ہے ۔ اصل میں یہ ترجمہ ہے غنی کا اور غنی کے معنی غیر محتاج کے ہیں مگر لوگ اس کا مطلب مصلحت کی رعایت نہ کرنے والے کا سمجھتے ہیں کہ جو جی آیا کردیا جس کو چاہا مار ڈالا ۔ جس پر جو چاہا کردیا کچھ انتظام اور قاعدے مقرر نہیں ہیں ۔( نعوز باللہ ) حالانکہ غنی کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی ذات غیر محتاج ہے نہ اس کو کسی کی عبادت سے نفع پہنچتا ہے اور نہ کسی کی سرکشی سے ضرر پہنچتا ہے اسی طرح اکثر لوگ بالکل معمولی بات سمجھ کر اپنے اوپر الزام مٹانے کو اپنے محاورہ میں کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں قسمت میں یوں ہی لکھا تھا اس کہنے کا تو گویا یہ مطلب ہوا کہ ہماری خطا نہیں نعوز باللہ