ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
(ملفوظ 466) نسبت معتبرہ کا بیان : فرمایا کہ میں اکثر طالبان بیعت کے سوال کرتا ہوں کہ میری کیا کیا کتابیں تم نے دیکھی ہیں اور ان کو دیکھ کر اپنی خالت میں کیا تغیر کیا ۔ چنانچہ ایک صاحب سے میں نے یہی دریافت کیا تھا انہوں نے جواب میں لکھا ہے کہ میں نے گناہوں سے توبہ کی اور یاد الہی سے شوق ہوگیا قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں ۔ درود شریف اوراستغفار پڑھتا ہوں بعد نماز تہجد اسم ذات کا ذکر کرتا ہوں اگر کوئی شخص اپنی حالت میں کچھ تغیر نہیں کرے تو فائدہ کیا اس کو بیعت کرنے کا اور جو اپنی حالت کو درست کرے تو اس سے دل خوش ہو یا نہ ہو کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آدمی کام کرنے والا ہے باقی نرے وعدے سے کام نہیں چلتا ۔ کرکے دکھلا دو مثلا کوئی کہے کہ انٹرنس پاس کرلوں گا اول نوکر رکھ لویا ایک کہے کہ میں وضو پھر کرلوں گا ۔ اول نماز کی نیت بندھوا دو اور یہی حاصل ہے بیعت کرلینے کے سوال کا کہ بس بیعت کرلو اور ہم کام کچھ کرکے نہ دکھلاویں ۔ پھر فرمایا کہ کبر خدا کے راستہ کا بڑا رہزن ہے اول اس کا علاج کرے بس یہی کافی ہے نسبت اور چیز ہے واللہ کا نام لینے سے حاصل ہوئی ہے لیکن جب تک کہ ادھر سے پورا تعلق نہ ہو کیا فائدہ ذراللہ کا دھیان رہنے لگا ۔ بس سمجھ گئے کہ ہم اللہ والے ہوگئے ہیں اور آیت و نحن اقرب الیہ من حبل الورید سے یہ خیال اور قوی کرلیا حالانکہ اس سے خدا کا قرب بندہ کے ساتھ ثابت ہے نہ کہ بندہ کا قرب اللہ کے ساتھ ۔ اور چونکہ دونوں قربتوں کی حقیقت جدا جدا ہے اس لیے ایک قرب دوسرے کو مستلزم نہیں اصلی معیار معتبرہ کا سنت کی متابعت ہے کہ ظاہر اقوال وافعال اور اخلاق سب سنت کے مطابق ہونے لگیں ورنہ کچھ بھی نہیں ۔ (ملفوظ 467) جوبات کتب سے حل نہ ہو اس کے بذریعہ خط پوچھنا چاہیے : ایک مولوی صاحب کا خط آیا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ لوگوں کے جو بہت لمبے چوڑے خطوط آتے ہیں بجائے اس کے لوگوں کو ان کا جواب آپ کے کتب سے لینا چاہیے اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ واقعی تربیتہ السالک وغیرہ ایسی کتب ہیں کہ ان سے بہت سی باتیں حل سوسکتیں ہیں ہاں البتہ اگر کوئی بہت ہی غامض بات ہو تو اور بات ہے اس کو مجھ سے پوچھ لینا چاہیے ۔