ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
فرمایا کہ یہاں دعوت کے کچھ قواعد مقرر ہیں ان کو پہلے سن لیجئے یہاں دوقسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ جو آزاد ہیں مثلا مولوی احمد حسن صاحب اور مفتی فضل اللہ صاحب وغیرہ ایسے صاحبوں میں جن کی دعوت کرنا منظور ہو ان سے فردا فردا کہا جائے ہر شخص کی جدا طبیعت ہے اس کو اختیار ہے قبول کرے یہ نہ کرے یا ممکن ہے کسی کو کچھ شبہات ہوں اور مجھے نہیں ہیں لٰہزا میری وجہ سے کسی پر بار نہ پڑے اور کسی کو تکلیف نہ ہو کیونکہ مجھے یاد ہے کہ جب میں مدرسہ دیوبند میں پڑھا کرتا تھا تو مجھے کسی جگہ دعوت میںجانا نہایت گراں گزر تا تھا اور کچھ نہ کچھ بہانہ مجھے بچنے کے لئے مل ہی جاتا تھا جب مہتمم صاحب کو معلوم ہوگیا کہ اس کی ایسی طبیعت ہے تو پھر انہوں نے فرما نا ہی چھوڑ دیا بس مجھے وہی خیال پیش نظر ہوجاتا ہے کے ایسا نہ ہو کہ کسی کو میری وجہ سے مجبورا دعوت میں جانا پڑے پھر فرمایا کہ ہر ایک کو وقت بھی بتلا دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ پیدل چلنا ہوگا خواں منظور کریں یا نہ کریں میں خود تنہا جاوں گا میرے ساتھ کوئی نہ چلے اور لوگوں کو بھی چایئے کہ وہ چار چار پانچ پانچ ہوکر جائیں زیادہ مجمع ایک ساتھ نہ جائے ۔ پھر فرمایا کہ مجھے اپنے ساتھ مجمع کا جانا اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو انجن کی طرح آگے چل رہے ہیں اور پیچھے لوگ گاڑیوں کی طرح کچھے چلے آرہے ہیں بہت سے مجمع کے ساتھ جانے کے نا مناسب ہونے پر فرمایا کہ ایک مرتبہ کانپور میں سب طالب علم وغیرہ دعوت میں جارہے تھے میں نے خود اپنے کانو ں سے بعض لوگوں کو کہتے سنا کہ خدا خیر کرے دیکھئے کس کے گھر چڑھائی ہوئی ہے فرمایا کہ بس میں نے جب ہی سے یہ سن کر طالب علموں کا کسی مکان پر دعوت کھانے کے لئے جانا بالکل بند کردیا تھوڑے تھوڑے لوگوں کا الگ الگ راستہ سے جانا اس لیے بھی مناسب ہے کہ بہت سا مجمع ہو گا تو آپس میں ہنستے بولتے ہوئے جائیں گے اور بعض کو دعوت کے ساتھ تفریح بھی اس صورت میں مقصود ہوگی بخلاف دودو چارچار کے جانے کے کہ اس میں قبول دعوت سے محض اتباع سنت مقصود ہوگا تفریح مقصود نہ ہوگی پھر فرمایا کہ دوسری قسم میں طالب علم اور ذاکرین ہیں یہ لوگ کسی جگہ دعوت میں نہیں جاتے ہیں ذاکرین چونکہ زیر تربیت ہیں اس لیے وہ بھی طالب علموں کے حکم میں ہیں ان لوگوں کی اگر سعوت کی جائے کہ ان کے واسطے کھانا یہیں مدرسہ میں بیھج دیا جائے اور جو اس میں تکلیف ہو تو ان لوگوں کی دعوت ہی نہ کی جائے بس ایک فہرست ونوں قسم کے لوگوں کی الگ الگ بنالیجئے اور دوسری قسم کے لوگوں کی öööööö 53 ööööö فہرست حافظ عبدالمجید صاحب کو دیدیجئے وہ اپنے طورپر ہر ایک کو مطلع کردیں گے تاکہ جس کا جہاں کھانا پکتا ہے وہ تیار نہ کرائے ( چنانچہ ایسا ہی ہوا اور نہایت راحت کے ساتھ کھانا تھانہ نہ بھون کے اسٹیشن کے مہمان خانہ میں کھایا گیا اور طالب علموں اور ذاکرین کیلئے خانقاہ میں کھانا آیا ۔ جامع عفی عنہ ) حضرت والا نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ میرا معمول صبح کو 8 بجے کھانا کھانے کا ہے چنانچہ 8 بجے ٹھیک کھانا تیار ملا ( جامع عفی عنہ ) ۔ 20 ربیع الاول 35 ھ بروز دو شنبہ ملفوظ 63) جاہل شاگرد کیلئے استاد کی نصیحت فرمایا کہ ایک مولوی صاحب سے ان کے شاگرد فارغ ہو کر وطن جانے لگے تو انہوں نے استاد کہا کہ مجھے تو کچھ آتا نہیں ہے اگر لوگوں نے مجھ سے کچھ پوچھا تو میں کیا جواب دوں گا ۔ ان مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم یہ کہہ دیا کرنا کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے چنانچہ ان سے جوجو مسائل بھی کسی نے پوچھے سب کا جواب انہوں نے یہی دیا کہ اس میں اختلاف ہے اس میں اختلاف ہے اس کے سوا بس اور کچھ زبان سے نکالتے ہی نہ تھے ۔ لوگوں نے خیال کیا کہ واقعی یہ بڑے زبردست عالم معلوم ہوتے ہیں کہ جوہر مسئلہ مختلف فیہ بتلاتے ہیں اور متدین بھی ہیں کہ جواختلاف کے لفظ کے سوائے اور کچھ زبان سے نہیں نکالتے ایک شخص چلتے ہوئے تھے سمجھ گئے انہیں کچھ آتا معلوم نہیں ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے ان سے یہ سوال کیا کہ حضرت آپ توحید باری تعالٰٰی کے مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں مولوی صاحب شاگرد نے مثل اور سوالوں کے جوابات کے اس کا بھی وہی جواب دیا کہ ( نعوذ باللہ منہ جامع عفی عنہ ) اس مسئلہ میں اختلاف ہے بس اس جواب سے ان کا سب بھید کھل گیا اور حقیقت معلوم ہوگئی کہ یہ کچھ بھی نہیں جانتے ۔ ( ملفوظ 64) جولو ہے سے کٹ جائے وہ شہید ایک عجیب فتوٰی : فرمایا کہ ایک خط آیا ہے اس میں لکھا ہے کہ ایک شخص ریل سے کٹ گیا کسی صاحب نے فتویٰ دیا کہ اس کی نماز جنازہ نہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ لوہے سے کٹ کر مرا ہے فرمایا کہ یہ خوب فتوٰی دیا کہ جتنے کالے اتنے ہی میرے باپ کے سالے لوہے کے کٹے ہوئے سب شہید