ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
مولانا نہایت ہی غریبانہ حالت سے رہتے تھے ۔ بنیئے نے خیال کیاکہ ضرور وہی غریب سا آدمی جو یہاں رات ٹھرا ہوا تھا کھنڑوے اتار کر لے گیا ہے اس نے پتہ تو حضرت مولانا سے پوچھ ہی لیا تھا بس اٹھ کر کے سیدھا اسی طرف کو ہو لیا ۔ حضرت مولانا جا ہی رہے تھے کہ بنیے نے آواز دی حضرت نے فرمایا کہ بھائی کیوں کیا ہے اس نے پاس جاکر ایک گھونسا لگایا اور کہا کہ کھنڑوے لے کر چلے آئے اور کہتے ہیں کہ کیا ہے چلو تھا نہ کو اس پر حضرت نے دل میں کہا کہ تو کیوں ایسی حالت سے رہتا ہے جو اس کو تیری طرف ایسا خیال ہوا تیرا علاج یہ ہے پھر حضرت فرمایا کہ بھائی چل ۔ چنانچہ چلتے چلتے جھنجانہ کے تھانہ کے قریب آئے تھانہ پہلے ہی آبادی کے باہر تھا اور اب بھی آبادی کے باہر ہی ہے ۔ تھانے دار نے جو ں ہی حضرت مولانا کو دور سے دیکھا سرو قد کھڑے ہوکر تعظیم دی اب تو بنیا گبھرایا اور سمجھا کہ یہ تو کوئی بڑے آدمی معلوم ہوتا ہیں ۔ مولانا نے بنیئے سے فرمایا کہ ڈریئے مت میں تجھے کچھ نہ کہنے دوں گا چنانچہ تھانہ دار نے اس کی خبر لینی چاہی مگر مولانا نے فرما دیا کہ اگر اسے کچھ بھی کہو گے تو مجھے تکلیف ہوگی اور بنیئے سے کہہ دیا کہ جا بھاگ جا بھاگ جا پھر مولانا مظفر حسین صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو اس واقعہ سے بڑا نفع ہوا جب لوگ مجھ سے مصافحہ کرتے اور ہاتھ چومتے ہیں تو میں خیال کرتا ہوں کہ مظفر حسین اللہ پاک کا تجھ پر بڑا فضل ہے کہ جو تجھے ان لوگوں کی نظروں میں معزز بنا دیا ہے ورنہ تیری اصلیت تو وہی ہے جو بنیئے کی نظر میں تھی ۔ ( ملفوظ 55 ) حضرت حاجی صاحب کی عظیم عنایت : اسی کبر کی مزمت کے سلسلہ میں فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہی حضرت حاجی صآحب کے ہمراہ کھانا کھارہے ہیں کہ حضرت مولانا شیخ محمد صاحب بھی ( جو کہ حضرت حاجی صاحب کے پیر بھائی تھے ) تشریف لے آئے اور کہا کہ آج تو بڑی ان کے ( یعنی مولانا گنگوہی ) حال پر عنایت ہو رہی ہے کہ ساتھ کھانا کھلایا جارہا ہے ۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ ہاں ہے تو میری عنایت ہی کہ جو ساتھ کھلا رہا ہوں ورنہ یہ کافی تھا کہ روٹی پر دال رکھ کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیتا اور کہہ دیتا کہ جاو وہاں بیٹھ کر کھالو یہ واقعی میری عنایت ہے کہ جو ان کے ساتھ کھلا رہا ہوں پھرحضرت والا نے فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی اس واقعہ کو نہایت فخر کے ساتھ خود سنا تے تھے الفاظ تو واقعی حضرت حاجی