ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
طالب علم اس وقت موجود نہ تھے اس لیے حضرت نے مولوی صاحب کے پاس جوکہ طلبہ کو پڑھاتے ہیں وہ خط بھیجا اور یہ فرما دیا کہ گراں نہ ہو تومولوی صاحب اس خط کو اپنے پاس رکھ لیں اور ان طالب علم کے آنے پر انہیں دیدیں اور اگر گراں ہوتو میں رکھ لوں میں دیدوں گا ۔ (ملفوظ 135) بمقابلہ بوڑھوں کے نوجوانوں میں زیادہ نرمی ہوتی ہے : دیوبند کے چند علماء حضرات حضرت قبلہ کے یہاں تشریف لائے تھے آتے وقت ٹم ٹم والے نے کرایہ آٹھ آنہ لیا اور روانگی کے وقت اس کے لڑکے کے نے چھ آنے کرایہ طے کیا اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ بمقابلہ بوڑھوں کے نوجوانوں میں نرمی ہوتی ہے علماء نے بھی لکھا ہے اور قاضی شریح سے اس کو نقل کیا ہے کہ اگر کوئی حاجت طلب کرے تو جوان سے طلب کرے کیونکہ بمقابلہ عمر رسیدہ کے نوجوان اکثر حاجت رفع کردیتا ہے ۔ دیکھو حضرت یوسف علیہ السلام سے جب ان کے بھائیوں نے معافی چاہی تو انہوں نے فورا ان کا قصور معاف کردیا ۔ اور جب حضرت یعقوب علیہ السلام سے معافی چاہی توانہوں نے فرمایا کہ چھا دیکھا جائے گا اگرچہ اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ یہ ٹالنا آخرشب کیلئے تھا کہ وہ قبولیت دعا کا خاص وقت ہے مگر انہوں نے اس کی وجہ یہ بھی قراردی کہ وہ چونکہ بوڑھے تھے اس وجہ سے تامل ہوا گویا کہ انبیاء میں بھی اختلاف طبائع کے آثار موجود ہیں ۔ علماء کی یہ بڑی حکیمانہ بات ہے ۔ بعض فقہاء نے اسی بنا پر ایک بنا پر ایک لطیفہ لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے جوپانی کے باب میں تنگی کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مقام پر پانی کثرت سے موجود تھا دجلہ فرات بہتے تھے پس انہوں نے خوب دل کھول کر شرطیں اور شرطیں لگائیں ۔ اور امام شافعی چونکہ مکہ معظمہ میں تھے اور وہاں پانی کی بہت قلت ہے اس لیے انہوں نے تنگی اس قدر نہیں کی بلکہ آسانی نکال دی ۔ اور امام مالک چونکہ مدینہ منورہ میں تھے اور وہاں اور بھی زیادہ پانی کی تکلیف تھی اس لیے انہوں نے اور بھی زیادہ آسانی کردی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختلاف اجتہادی میں بھی طبیعت کا اثر داخل ہے کہ اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے طبائع پر اثر پکڑ کر مختلف افعال ظاہر ہوئے اسی پر مشائخ کے اختلا ف کو قیاس کرلینا چاہیے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ہر شخص اپنے مشائخ کے اتباع کی کوشش کرتا ہے چنانچہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ بھائی ہم نے تو اپنے