ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
مسلمان افسروں نے دیئے تھے دکھلائے اس پر حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ ان افسروں کو آپ کو دوسری جگہ ملازمت کرنے کی خبر ہے انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں اطلاع ہے میں نے ان کو دوسری ریاست کے آئے ہوئے احکامات دکھلادیئے تھے یہ سنکرپسند کیا۔ (ملفوظ 132) علم دین وعلم طب دونوں جمع نہیں ہوسکتے : فرمایا کہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مولویوں کیلئے علم طب کا مشغلہ مناسب نہیں اس قول کی تائید ایک خط سے ہوتی ہے جوکہ آج ایک طالب علم کا آٰیا ہے ۔ یہ طالب علم یہاں پڑھتے تھے مگر ان کے والد کی یہ رائے ہوئی کہ کوئی علم ایسا بھی حاصل کرنا چاہیے جس سے گزر اوقات کی صورت ہو اس لیے وہ یہاں سے چلے گئے اور مدرسہ طبیہ دہلی میں جاکر طب شروع کی ۔ اب وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنا تعلق مدرسہ طبیہ سے بالکل علیحدہ کرلیا ہے کیونکہ مجھے تجربہ سے معلوم ہوا کہ میرا وہ خیال کہ میں ایسی جگہ تعلیم حاصل کروں جہاں علم دین وعلم طب دونوں حاصل ہوسکیں ۔ بالکل غلط ہے اور علم دین وعلم طب دونوں جمع نہیں ہوسکتے مجھے ہر وقت بمقتضائے عمر فسق وفجور میں ابتلاء کا اندیشہ رہتا ہے پھر حضرت والا نے فرمایا کہ اب ان کی سمجھ میں بات آگئی اگر انہیں عمل کی فکر نہ ہوتی تو علم کی بھی پروانہ ہوتی میں تو کہا کرتا ہوں کہ صحبت صالحہ چاہے اپنے سے چھوٹوں ہی کی ہوبہت غنیمت ہے ۔ (ملفوظ 133) ہرشخص اپنی متعلقہ شئے کی عیب گوئی کو اپنی طرف منسوب سمجھتا ہے : فرمایا کہ ہرشخص اپنی متعلقہ شے کی عیب گوئی کو اپنی طرف منسوب سمجھتا ہے اسی بناپر امام غزالی نے لکھا ہے کہ کسی شخص کے گھوڑے یا گاڑی یا مکان وغیرہ میں عیب نکالنا یہ بھی اس شخص کی غیبت ہے ۔ فائدہ : یہ تذکرہ حضرت مدظلہ العالی نے اسی وجہ سے فرمایا کہ کچھ علماء مہمان تھے انہوں نے ذکر فرمایا کہ ہم اسٹیشن سے آتے وقت ٹم ٹم کے گھوڑے کو یہ کہا تھا کہ یہ کیا چلے گا اس پر جب گھوڑا اچھی طرح چلا تو ٹم ٹم والے نے کہا کہ مولوی صاحب توفرماتے تھے کہ گھوڑا چلے گا ہی نہیں دیکھو اب کیسا چل رہا ہے ۔ (جامع عفی عنہ) (ملفوظ 134) خط سپرد کرنے میں احتیاط : مدرسہ کے ایک طالب علم کا خط حضرت والا کی ڈاک کے ساتھ ڈاکخانہ سے آگیا وہ