ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
اس لیے اپنی طرف منسوب کرلیا ہے کسی اور گفتگو کے سلسلہ میں فرمایا کہ تفسیر بالرائے وہ ہے جو قواعد شرعیہ یا عربیہ کے خلاف ہو ۔ (ملفوظ 737) تقیہ کا معنی : فرمایا کہ تقیہ کا حاصل ہے ضرر کے خوف سے مذہب کا چھپانا ۔ مگر ہمارے یہاں ضرر شدید کا خوف ہونا جائز ہے ۔ (ملفوظ 738) قرآنی اوقاف کی حقیقت : فرمایا کہ قرآن مجید میں ترکیب کے اعتبار سے وقف تجویذ کیے ہیں اور ہر آیت پر وقف ضروری نہیں ۔ گو آیتیں تو فیقی ہیں جیسا دو شعر قطعہ بند ہوں ۔ تو مضمون چاروں مصر عوں کا ملکر ایک ہوگا ۔ مگر ایک شعر کے ختم پر یہ ضرور کہیں گے کہ شعر ختم ہوگیا ۔ اسی طرح قرآن مجید کا تجزیہ مثل بوستاں کے تجزیہ کے ہے اوقاف تو مضمون پر ہیں اور اجتہادی ہیں اور آیتیں توفیقی ہیں بعض لوگ وقف کو آیت پر لازم سمجھتے ہیں اور فرمایا کہ وقف کے معنی قطع النفس کے ہیں ۔ (ملفوظ 739) تکلف کے ساتھ دعویٰ محبت جھوٹا ہے : ایک صاحب پنجاب سے تشریف لائے تھے انہیں جو کچھ کہنا تھا وہ تو زبانی کہہ چکے تھے جس کا حضرت والا نے جواب بھی دے دیا تھا ۔ پھر انہوں نے پرچہ لکھ کر پیش کیا ۔ اس میں کچھ اپنی محبت کا اظہار کیا تھا او ریہ بھی لکھا تھا کہ بہت لوگ اصلاح سے برا مانتے ہیں مگر میں برا نہیں مانتا جو کچھ بھی مجھے کہاجائے سنوں گا ۔ اس پر حضرت والا نے فرمایا ک اس اہتمام سے محبت اظہار محض شاعرانہ تکلف ہے اور برانہ ماننے کا ذکر ایک دعوے ہے اور یہ دونوں باتیں خلاف طریق ہیں ۔ پھر برانہ ماننے کا ذکر جو آپ نے کیا ہے اس کا تویہ مطلب ہے کہ باوجود اس کے بات براماننے کی ہے مگر میں برا نہیں مانتا آپ کو کتنے ٹکے وصول ہوئے ان باتوںسے اور خیر اگر سادگی سے نرا اظہار محبت ہی ہو تائب بھی مضائقہ نہ تھا مگر یہ جملہ بہت ناگوار ہوا مجھے کہ بہت لوگ برا مانتے ہیں ۔ مگر میں نے نہیں مانا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسے کوئی بی بی خاوند سے کہے کہ گوبی بیاَ ں روٹیاں نہیں پکایا کرتی ہیں مگر میں روٹی پکاتی ہوں اس پر آپ یہی کہیں گے کہ مردار تیرا تو کام ہی یہ ہے ۔ بس معاف کیجئے نہ آپ مرید نہ میں