ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
مشترک تھے ایک میں کچھ ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں دوسرے میں انتہا ہوئی تھی جب سند دینے اور دستار باندھنے کا وقت آیا تو مستحق وہی مدرسہ تھا جہاں کہ انتہا ہوئی تھی مگر پہلے مدرسہ والوں نے ان طالب علم کو کچھ روپیہ وغیرہ کا لالچ دیے کر کچھ نیم راضی ساکر لیا کہ تم اپنی دستار بندی ہمارے مدرسہ میں کراو اس مدرسہ میں نہ کراو جب اس مدرسہ والوں کو یہ معلوم ہوا کہ قصہ یہ ہے تو انہوں نے ان طالب علم صاحب کو بلایا اور ایک کو ٹھڑی وغیرہ میں بٹھلا کر ان کی خوب خاطر کی اور مہتمین کسی بہانے سے کوٹھڑی سے باہر چلے گئے اور کوٹھڑی کی کنڑی بند کردی وہ طالب علم بیچارے بند ہوگئے نماز وغیرہ بھی بیچارے نے وہیں پڑھی ہوگی مگر پاخانے وغیرہ کی سخت مصیبت ہوئی ہوگی کیسی واہیات بات کی ۔ پھر اگلے دن صبح کو جب جلسہ کا وقت ہوا اور لوگ جمع ہوگئے اور سب طالب علموں کی دستار بندی ہوچکی تو ان طالب علم کو بھی کوٹھڑی سے نکال کر لائے اور مجمع بیٹھایا اور ان کی دستار بندی کراکر کہا کہ اب جہاں تمہارا دل چاہے جاؤ۔ اس پر مفتی محمد فضل اللہ صاحب نے عرض کیا کہ اگر وہ طالب علم سب حال کھول دیتے تو کیا ہوتا حضرت والا نے جواب دیا کہ کہہ دیتے کہ جھوٹ کہتے ہیں اس پر مفتی صاحب نے کہا کہ اور برائی تھی کہ جن کی دستاربندی ہورہی ہے انہوں نے ابھی سے جھوٹ بولنا شروع کردیا تو آئندہ کیا کریں گے اس پر حضرت نے فرمایا کہ وہ فارغ العلم تھے نہ کہ فارغ العمل ۔ ( ملفوظ 34) امام صاحب کو تنخواہ مں چنے ملنے سے امامت کا عذر : فرمایا کہ حافظ صاحب بڑے بزرگ صاحب نسبت متقی تھی شخص تھے ریاست میں امامت پر ملازم تھے ایک مرتبہ ریاست کی طرف سے تنخواہ میں بجائے روپیوں کے جملہ ملازمین کو چنے دئیے گئے چنانچہ حافظ صاحب کو بھی چنے ہی ملے بیچارے بہت پریشان کہاں تک چنے کھاتے اور نواب صاحب سے کچھ عذر کرنا چنوں کے نہ لینے کا مناسب نہ خیال کیا ایک ترکیب کی کہ جب نماز کا وقت ہو جھٹ وضور کر اور دو ایک آدمیوں کو ساتھ لے جو اس وقت موجود ہوں جماعت سے نماز پڑھ کے بیٹھ جائیں لوگ کہٰیں کہ حافظ صاحب نماز پڑھائے جواب میں فرمایا کہ بھائی پڑھ لی کچھ عذر تھا اس لیے جلدی پڑھ لی ۔ جب چند روز متواتر یہی قصہ لوگوں نے دیکھا کہ حافظ صاحب لوگوں کے آنے سے