ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
ڈھاکہ نے کچھ رقم دیوبند اور سہارن پور کے مدرسوں کیلئے میرے سپرد کرنا چاہی میں نے وہاں تقوٰی تو نہیں بگھارا مگر یہ عذر کردیا کہ چونکہ میرا لمبا سفر ہے اور راہ میں احتمال چوری وغیرہ کا ہے لہذا آپ نوٹ رجسٹری کراکر روانہ کردیجئے ۔ پھر فرمایا کہ مولویوں کو تو اموال سے بچنا بہت حد تک چاہیے اس لیے کہ جو مولوی وعظ کہہ نذرانہ قبول کرتے ہیں یا چندہ وصول کرتے ہیں ان کے وعظ ونصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مولوی صاحب تو راضی ہو ہی گئے کیونکہ ان کا مقصود حاصل ہوگیا اور عمل واصلاح سے بے فکر ہوجاتے ہیں کہ بس مولوی صاحب کودے کر نبٹ گئے اب کچھ غم نہیں سب گناہ دور ہوگئے ۔ بخلاف ان علماء کے جو چند وصول کرنے سے پرہیز کرتے ہیں ان سے لوگ ڈرتے ہیں کہ بھائیوں مولوی صاحب آگئے ہیں اپنی اپنی حالتیں درست کرلو داڑھیاں نیچی کرلو ٹخنے کھول لو ایسا نہ ہو کہ مولوی صاحب خفا ہوجائیں ۔ ملفوظ ( 4) بیت المال سے کچھ لینے میں احتراز : فرمایا کہ ریاست بہاولپور کے سفر میں وہاں کے سپر نٹنڈنت صاحب نے ریاست کی طرف سے کچھ رقم پیش کی 150 روپیہ تو نذارانہ کے اور 21 روپیہ دعوت کے میں نے یہ عذر کردیا کہ اول تو ریاستوں کے اموال کا کچھ اعتبار نہیں علاوہ اس کے یہاں کے بیت المال میں میرا کچھ زیادہ حق نہیں کیونکہ مجھ سے یہاں کے لوگوں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا اس پر افسران ریاست نے جو وہاں موجود تھے یہ کہا کہ اچھا ہم اپنے پاس سے پیش کریں تو وہ تو آپ قبول فرما لیں گے ۔ اس پر میں نے جواب دیا کہ ہاں ایک شرط سے کہ آپ لوگ اس بات کی قسم کھائیں کہ ہم اسی قدر پیش ہوتا ہے کہ انہوں نے قسم کھائی غرضیکہ میرا پورے طور سے اطمینان کردیا کہ ہاں ایسا ہی ہوگا اور میرے دل کو بھی اطمینان ہوگیا کہ اس میں کچھ جھوٹ نہیں بولا گیا ہے کیونکہ آخر کی کل رقم کا مجموعہ جو سب نے پیش کی اس قدر نہ ہوا کر جس قدر کہ وہ ریاست کی رقم تھی ۔