ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
( ملفوظ 124 ) جدید تعلیم یافتوں کی چخ چخ : فرمایا کہ بعض جدید تعلیم یافتوں سے گفتگو کسی امر میں ہوئی اور اس وقت انہوں نے اس کو تسلیم بھی کرلیا مگرپھر جب ملے تو پھر اسی امر کے متعلق بات چیت شروع کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعضے لوگ حق سمجھ کردل سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ بھی ایک قسم کی آجکل کی نئی تہزیب ہے کہ خاموش ہوجاتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ان سے کون چخ چخ کرے یہ تو مولوی ہیں ان کا تو کام یہی ہے تیار رہتے ہیں کہ کب کوئی قصہ درپیش ہوا اور ہم جواب دیں ۔ ( ملفوظ 125 ) پیٹ اور تن دنیا کا لیکچر دیتے رہتے ہیں : فرمایا کہ علماء جو تحصیل دنیا کی ترغیب نہیں دیتے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ساتھ پیٹ اور تن خود ایسے لگے ہوئے ہیں کہ وہ دنیا کی تحصیل کے لکچر دیتے رہتے ہیں پھر علماء کو کیا ضرورت کہ دنیا کی طرف راغب کریں لوگ تو خود ہی راغب ہیں ہر شخص کو کھانے پہننے کی خود فکر لگی ہوئی ہے ۔ البتہ علماء کاکام انہاک دنیا سے منع کرنا ہے ۔ (ملفوظ 126 ) دینی اور دنیاوی تعلیم کا نمایاں فرق : فرمایا کہ مولوی محمد عمر صاحب رحمت اللہ علیھ تھانوی نے دینی اور دنیاوی تعلیم کا خوب فرق بیان فرمایا کہ دنیا کی تعلیم تو جب تک ایک حد خاص تک نہ ہو بالکل بے سود ہے بخلاف اس کے دینی تعلیم کا کوئی حصہ بھی بے کار نہیں اور دین میں تو مفید ہے ہی دنیا کے حق میں بھی وہ مفید ہے حتٰی کہ اگر کوئی نو مسلم صرف اذان سیکھ لے اور کسی مسجد میں جاکر اذان دینے لگے اور بدھنے بھر کر رکھدیا کرے چٹائیاں بچھا دیا کرے جھاڑو دیدیا کرے بس اسے روٹیاں آنے لگیں گی ۔ یہ دینی تعلیم کا بہت ہی ادنٰی درجہ ہے جس کا دنیاوی فائدہ یہ ہے اور آخرت کا فائدہ الگ رہا ۔ پھر فرمایا کہ جب دنیا کی ہوا چل گئ ہے لوگ بس دنیا ہی کی تعلیم کی طرف رجوع کرتے ہیں دین کا خیال بہت کم کرتے ہیں ۔ (ملفوظ 127 ) فطری امر : فرمایا کہ اگر تمام دنیا کے حکماء ملکر بچے کو دودھ کھنچنا سکھلانا چاہیں تو نہیں سکھلا سکتے یہ فطری امر ہے کہ بچہ سیکھایا پیدا ہوتا ہے اللہ پاک سکھلاتے ہیں وہ پیدا ہوتے ہی