’’دار قطنی ؒ فرماتے ہیں کہ : آپ ا نے اس شخص کو آگ کی دھمکی دی ہے جو آپ پر جھوٹ بولے جبکہ آپ ا نے حدیث پہنچانے کا بھی حکم دیا ہے ، پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت اکا حکم یہ ہے کہ آپ سے صحیح اور معتبر احادیث پہنچائی جائیں اور غیر صحیح اور باطل سے احتراز کیا جائے ، نہ یہ کہ جو کچھ سنا ان سب کو نقل کردیا جائے اس لئے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا ہے کہ ’’کفی بالمرء اثما ان یحدث بکل ما سمع‘‘ آدمی کے گنہگارہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو نقل کردے۔
(الاسرارالمرفوعۃ ۷۲)
پھر اس کے بعد لکھتے ہیں :
ثم من روی عن النبی ﷺ حدیثا وھو شاک فیہ : أصحیح ام غیر صحیح؟ یکون کاحد الکذابین لقولہ ﷺ’’ من حدث عنی حدیثا وھو یری انہ کذب... ‘‘حیث لم یقل وھو یستیقن انہ کذب۔ (الاسرار۷۳)
’’پھر جوشخص رسول اللہ اسے کوئی حدیث روایت کرتا ہے اور اس کو اس کے متعلق شک ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں وہ بھی جھوٹوں میں شامل ہوگا آپ ا کے اس ارشاد کی وجہ سے ’’ من حدث عنی حدیثا وھو یری انہ کذب... ‘‘ بایں طور کہ آپ ا نے یہ نہیں کہا کہ ’’جھوٹ کا یقین ہوتے ہوئے ’’بلکہ یہ کہا ہے کہ‘‘ جھوٹ کا گمان ہوتے ہوئے ‘‘نقل کرنیوالا بھی جھوٹوں میں شامل ہوگا ‘‘۔
شاہ صاحب ؒ حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں :