گاری ، ذہانت و سچائی کی میزان میں ہر راوی پرکھا گیا ، ان میں سے سچے ، معتبر راویوں کو الگ کیا گیا اور ان کی حدیثیں شوق و رغبت سے قبول کی گئیں ، دوسری طرف کذابوں کا پردہ چاک کیا گیا ، انہیں بے نقاب کرکے آخرت کی رسوائی کے ساتھ دنیا میں بھی ان کی باطنی خباثت کو آشکارا کیا ، اور ان کی حدیثوں کو قبول کرنے کے بجائے پس پشت ڈال دیا ، شاعر کہتا ہے:
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا بتایا
راویوں کی چھان پھٹک اتنے اہتمام سے ہوئی کہ یہ عمل مستقل ایک فن کی شکل اختیار کر گیا جس کو ہم ’’اسماء الرجال‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں ، اس فن کی کتابوں میںہر راوی پر تفصیل سے کلام کیا گیا ہے ، راوی کی سچائی یا کذب بیانی ، حافظہ کی قوت یا کمزوری ، دیانت داری اور دیگر اسباب جرح و تعدیل کی وضاحت کی گئی ہے ، اس کے علاوہ راوی کی سن پیدائش ، سن وفات ، شیوخ اور تلامذہ کا تذکرہ بھی ملتا ہے ، جس سے ہر ہر راوی کے قابل اعتماد یا نا قابل اعتماد ہونے کا بآسانی فیصلہ کیا جا سکتا ہے، اس طرح سند کے اہتمام اور راویوں کی جانچ پڑتال سے موضوع احادیث کو پکڑنا آسان ہوگیا ، اور موضوعات کے رواج پانے کی جڑیں ہی کٹ گئیں،بقول حالی
گروہ ایک جویا تھا علم نبی کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا
لگایا پتہ جس نے ہر مفتری کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کئے جرح و تعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں