بے بہا کو اس قدر سینے سے لگایا کہ نہ اس کو ضائع ہونے دیا نہ اس میں جھوٹ کی آمیزش ہونے دی ، صحابہث کی یہ مقدس جماعت نہ کسی علم کو چھپاکر اس کو ضائع کرنے والی تھی ، اور نہ اس میں جھوٹ ملا کر اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تھی، ایک طرف علم کو نہ چھپانے کا حکم تھا، دوسری طرف احادیث میںاقل قلیل جھوٹ سے بھی سختی سے روکا گیا تھا ، انہوں نے دونوں حکموں کو بخوبی انجام دیا ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں:
لوْ لا آیتانِ انْزلھُمَا اللّٰہُ فی کتابِہ ما حدّثتُکمْ بِشیٍٔ ابَدًا، قول اللّٰہ عزّوجلّ انّ الّذینَ یَکْتُمُونَ مَا انْزَلنَا مِنَ البَیّنَاتِ الآیۃ۔( بقرۃ ۱۵۹) ( بخاری- کتاب العلم ، باب حفظ العلم-)
’’اگروہ دو آیتیں(علم چھپانے کی وعید میں) نہ ہوتیں جو قرآن کریم میں اللہ تعالی نے نازل فرمائی ہیں تو میں کبھی بھی کوئی حدیث بیان نہ کرتا‘‘۔
ہر صحابی کی یہ خواہش ہو تی تھی کہ حدیث بیان کرنے کی نوبت اس کو نہ آئے بلکہ کوئی دوسرا صحابی بیان کرکے تبلیغ حدیث کی ذمہ داری پوری کردے ، حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ فرماتے ہیں
ادْرَکتُ فِی ھٰذا المَسْجدِ عِشْرینَ و مِائَۃً منَ الانْصَارِ ومَا مِنْھُمْ مِنْ احَدٍ یُحدِّثُ بِحَدیثٍ الا وَدّ انّ اخَاہ کفَاہ الحَدیْثَ۔
(سنن دارمی- باب من ھاب الفتیا- ۶۵)
’’میں نے اس مسجد (کوفہ)میں ایک سو بیس انصاری صحابہ ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک یہ خواہش کرتا کہ کوئی دوسرا صحابی حدیث بیان کرکے ان کی طرف سے کافی