پراتفاق کر لینا محال ہے،(اصطلاح حدیث میں اس کو حدیث متواتر کہا جاتا ہے ) لہذا ان احادیث کا بھی وہی حکم ہوگا جو قرآن کریم کا ہے ،یعنی ان کو ماننا ضروری ہے اور ان کو جھٹلانے والا بھی اسلام سے خارج ہوجائے گا ، اصول الشاشی لے مصنف ؒ لکھتے ہیں:
ثم المتواتر یوجب العلم القطعی ویکون ردہ کفرا۔
(اصول الشاشی۷۴)
’’پھر حدیث متواتر علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے، اور اس کو رد کرنا کفر ہے‘‘
البتہ احادیث کا اکثر حصہ ہم تک ایک ، دو یا تین راویوں کے واسطے سے پہنچاہے ، اس لئے ان کا وہ درجہ نہیں ہوسکتا جو قرآن اور احادیث متواترہ کا ہے ، اوروہ احادیث( جن کے راوی ایک ، دویا تین ہیں) بھی سب درجہ میں برابر نہیں ہوں گی بلکہ راوی کے مراتب کے بقدر وہ بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہوں گی، اگرکسی حدیث کا راوی سچا ، متقی اور قوی الحافظہ ہے تو اس کا درجہ اعلی ہوگا ، لیکن پھر بھی وہ حدیث قرآن کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی ، اس وجہ سے نہیں کہ وہ حدیث ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اس کو بیان کرنے والا ایک ہی ہے ، اور اگر راوی جھوٹا ہے ، یا اس کا حافظہ بہت زیادہ کمزور ہے تو اس حدیث کا درجہ نہایت ہی کمزور ہوگا ، اور یہ اس وجہ سے کہ اس کا بیان کرنے والا قابل اعتماد نہیں ہے ، اگر بالفرض قرآن کی آیتوں کو بیان کرنے والے ایک دو راوی ہوتے تو ان کی بھی احادیث کی طرح اعلی اور ادنی کی تقسیم ہوتی ، لیکن قرآن میں تو ایسا ہونے سے رہا ، اس لئے قرآن حضور اقدس ا کے زمانے میں جیسا قطعی الثبوت تھا آج بھی ویسا ہی قطعی الثبوت ہے، پس ساری وحی فی نفسہ واجب العمل ہے، اور سارے ہی احکام اسلام کو ماننا ضروری ہے، ایک حکم کا انکار- چاہے وہ حکم قرآن