محدثین میں سے ہیں اور نہ کسی محدث کی طرف روایت کو منسوب کیا ہے۔
سائل: کیا حاضر دماغی سے باتیں کررہے ہو، اگر ان اکابرین کے بیان کا اعتبار نہیں ہوگا تو پھر کون ہیں جن کے بیان کرنے پر اعتماد کیا جائے ۔
مجیب : یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے ہر فن کا کسی نہ کسی کو ماہر بنایا ہے، کتنے علم فقہ کے سمندر میں غوطہ زنی کرنے والے احادیث کی تنقید میں مہارت نہیں رکھتے، اور کتنے ماہر نقاد محدثین کو علم فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، کتنے علم تفسیر کے شہسوار حدیث میں صحیح و سقیم کی تمیز پر قادر نہیں ہیں، اور کتنے علوم باطنیہ میں مہارت رکھنے والے صوفی علوم ظاہری میں عاجز نظر آتے ہیں، پس ہر ایک کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا چاہئے، (یعنی دوا صحیح ہے یا غلط اس کو معلوم کرنے کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے نہ کہ انجینئرکے پاس)۔
سائل: پھر تو تعجب اور بڑے تعجب کی بات ہے کہ یہ مصنفین جو بڑے صوفیاء میں شمار ہوتے ہیںاور اولیاء اللہ کی فہرست میں ان کا نام لیاجاتا ہے، جو علوم باطنی کے علم بردار ہیں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے، جبکہ یہ بات مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا بڑا گناہ ہے۔
مجیب: ہر گز نہیں وہ حضرات تو اس سے منزہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کوئی جھوٹ باندھے، اور جو بھی ان حضرات کی طرف وضع حدیث کی نسبت کرے وہ بڑا بد بخت انسان ہے۔
سائل: اگر یہ حضرات جھوٹ گھڑنے والے نہیں ہیں تو پھر کون ہے ان کا گھڑنے والا؟