تحقیق : اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(المقاصد الحسنۃ ۲۸۶؍؍ التذکرۃ ۲۰؍؍ الدرر المنتثرۃ ۱۴۸؍؍ کشف الخفاء ۲/۷۴ ؍؍ الاسرار المرفوعۃ ۲۴۷)
٭ اطلبوا العلم ولو بالصین۔
ترجمہ : علم حاصل کرو اگرچہ اسکے لئے چین جانا پڑے ۔
تحقیق : علامہ سخاویؒ نے لکھاہے کہ:
’’یہ روایت ضعیف ہے بلکہ ابن حبانؒ نے باطل کہا ہے اور ابن جوزیؒ نے موضوعات میں ذکر کیا ہے‘‘ ۔
علامہ سخاوی ؒنے ابن جوزی ؒ کا قول نقل کرکے سکوت کیا ہے۔
(المقاصد الحسنۃ ۶۳)
حضرت شیخ یونس صاحب دامت برکاتہم نے لکھا ہے کہ اس روایت کی کوئی معتبر سند نہیں ہے۔(نوادر الحدیث مع اللآلی المنثورہ ۲۷۶)
ازالۂ وہم : علامہ مناویؒ نے اس حدیث پر لکھا ہے :
حکم ابن الجوزی بوضعہ و نوزع بقول المزی : لہ طرق یصل بمجموعھا الی الحسن و بقول الذھبی ؒ فی تلخیص الواھیات روی عن عدۃ طرق واھیۃ و بعضھا صالح۔
’’ ابن جوزی ؒ نے اس (مذکورہ بالا حدیث) پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے لیکن حافظ مزی ؒ اور حافظ ذہبیؒ کے اقوال ان کے مخالف ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ تعدد طرق سے اس کو تقویت مل جاتی ہے‘‘۔