اللہ ا نے فرمایا اے جبرئیل! آپ نے میرے موت کی خبر د ے دی، جبرئیلں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہا آخرت آپ کے لئے دنیا سے بہتر ہے ، اور آپ کو آپ کا رب اتنا نوازے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ، پھر آپ نے حضرت بلال ص کو اذان دینے کا حکم دیا ، اذان سن کر مہاجر و انصار صحابہث مسجد میں آگئے ، آپ انے ان کو نماز پڑھائی ،پھر منبر پر تشریف لے گئے اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد ایسا خطبہ دیا کہ جس سے دل خوفزدہ اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں ، پھر فرمایا کہ اے لوگوں میں تمہارے لئے کیسا نبی ثابت ہوا ، حاضرین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ا)اللہ تعالی آپ کو بہترین نبی ہونے کا اچھا بدلہ مرحمت فرمائیں ، آپ ہمارے پاس مہربان باپ اور خیر خواہ اور مشفق بھائی کی طرح رہے، آپ نے اللہ کے پیغامات اور اسکی وحی کو ہم تک پہچانے کا حق ادا کر دیا ، اور آپ نے لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اللہ کی طرف بلایا، پس اللہ تعالی ہماری طرف سے اس سے بہتر بدلہ نصیب فرمائیں جو کسی نبی کو انکی امت کی طرف سے ملا ہو ، پھر آپ انے فرمایا کہ اے مسلمانوں ! میں تمہیں اللہ کی اور جو حق میرا تم پر ہے اسکی قسم دے کر کہتاہوں کہ میری طرف سے تم میں سے کسی پر بھی ظلم ہوا ہو وہ قیامت میں بدلہ لئے جانے سے پہلے آج ہی بدلہ لے لے ،جب باربار یہ جملہ ارشاد فرمایا تو ایک بڑی عمر کے صحابی صکھڑے ہوئے جن کا نام عکاشہ تھا ، اور مسلمانوں کے بیچ میں سے نکل کر حضور اکے سامنے کھڑے ہوگئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ا)میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،اگر آپ بار بار ہمیں اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں ہرگز آپ کے سامنے یہ قدم نہ اٹھاتا ، میں آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا ، جب اللہ نے ہمکو فتح عطا فرمائی اور اس نے اپنے نبی ا کی مدد کی اور ہم غزوہ سے