کرتے ہوئے حدیث مشہور کی صحت کا دعوی کردیا ، اور جن حضرات نے بھی صحت کا دعوی کیا ہے ان کو بھی یہی صورت پیش آئی ہے ، یا پھر ملا علی قای ؒ پر اعتماد کیا ہے۔
(اللآلی المنثورہ ۴۵۸)
فائدہ: مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ’’ وجود عالم سرور دو عالم کے صدقے میں ہے‘‘یہ بات ثابت نہیں ہے ، کسی آیت یا حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے ، اور جتنی بھی روایتیں ہیں ان میں سے ایک بھی لائق اعتماد نہیں ہے۔
ابن نجیمؒ البحر الرائق میں تحریر فرماتے ہیں :
لولا نبینا لم یخلق آدم ںو ھو خطأ۔(فتاوی یوسفیہ بحوالہ البحر الرائق ۵؍۱۲۱)
’’-اگر ہمارے نبی ا نہ ہوتے تو آدم ںپیدا نہ ہوتے- یہ کہنا غلطی ہے‘‘۔
علامہ شامیؒ منحۃ الخالق میں فرماتے ہیں :
و فی جواھر الفتاوی ھل یجوز ان یقال لولا نبینا محمد ﷺ لما خلق اللہ تعالی آدم قال ھذا شییٔ یذکرہ الوعاظ علی رؤوس المنابر یریدون بہ تعظیم محمد ﷺ و الاولی ان یحترزوا عن امثال ھذا فان النبی ﷺ وان کان عظیم المنزلۃ و المرتبۃ عند اللہ تعالی کان لکل نبی من الانبیاء ؑ منزلۃ و مرتبۃ و خاصیتہ لیست لغیرہ فیکون کل نبی اصلا بنفسہ۔(فتاوی یوسفیہ بحوالہ منحۃ الخالق ۵/۱۳۱)
’’ جواہر الفتاوی میں لکھا ہے کہ کیا یہ کہنا جائز ہے کہ’’ اگر ہمارے نبی ا نہ ہوتے تو