٭ صحابی کے فرمان کو ’’حدیث موقوف‘‘ اور تابعی کے قول کو ’’حدیث مقطوع‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اگر ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کردی جائے تو ان کو اس حیثیت سے موضوع کہا جاتا ہے کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺکی طرف غلط اور جھوٹ ہے، اس کی تفصیل پہلے حصے میں آگئی ہے۔
٭کسی حدیث کو موضوع کہنا ماہرین علم حدیث کا کام ہے، اس کتاب میں جن مروجہ احادیث کو موضوع یا بے اصل کہا گیا ہے ان محدثین کی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے، اس لئے فیصلۂ وضع کو نقل کرنے کے بعد منقول عنہ کا حوالہ دینے پر اکتفا کیا ہے ، موضوع ہونے کا سبب حوالوں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
٭اس کتاب میں احادیث کو موضوع کہنے میں بڑے احتیاط سے کام لیا گیا ہے، چنانچہ کسی ایک کتاب کو دیکھنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ، بلکہ ایک ایک حدیث کے لئے بقدر وسعت کئی کئی کتابوں کی ورق گردانی کی گئی ہے، کتنی حدیثیں ایسی ہیں جن کو اس کتاب میں اس لئے نہیں لیا گیا کہ اس کے موضوع ہونے میں کسی ایک عالم کو اختلاف تھا،چاہے وہ عالم یا محدِّث متساہل ہی کیوں نہ ہو ، اور جہاں ایسی مختلف فیہ احادیث داخل کی گئی ہیں وہاں اختلاف ذکر کردیا گیا ہے،اور ان کے بیان کرنے کا مقصد پہلے بیان کردیاگیا ہے ، اور اس بات کی مکمل کوشش کی گئی ہے کہ کوئی غیر موضوع کو موضوعات کی فہرست میں نہ لکھ دیاجائے اگرچہ کوئی موضوع روایت اس احتیاط کی وجہ سے شامل کرنے سے رہ جائے، تاکہ ہر کوئی بغیر تردد کے ان موضوعات سے بچنے اور بچانے کی کوشش کرے۔
٭کبھی کوئی لمبی حدیث موضوع ہوتی ہے ، لیکن اس کا کوئی جزء کسی معتبر حدیث