لا بأس وان وجدت علی الحائط موعظۃ فانظر فیھا تتعظ۔
(نوادر الحدیث ۴۱)
’’کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اگر کسی دیوار پر بھی تمہیں کوئی نصیحت کی بات مل جائے تو اسے بھی دیکھو تمہیں اس میں سے بھی نصیحت ملے گی‘‘۔
پس اولیاء کے واقعات اور مواعظ سے فائدہ اٹھانا چاہئے ، بڑے بڑے محدثین اور علمائے محققین نے بھی اولیاء اللہ کے واقعات اور ان کے ارشادات سے استفادہ کیا ہے، علم حدیث میںامت کا اعتماد حاصل کرنے والے محدثین نے بھی اس باب میں کمزوری کو برداشت کرلیا ہے ، سند کی تفتیش میں پڑ کر ان واقعات سے فائدہ نہ اٹھانا محرومی کی بات ہے، اور اس کو بنیاد بنا کر کسی کتاب پر تنقید کرنا تو بالکل ناروا ہے۔
ایک مرتبہ فضائل اعمال کی تعلیم میں ایک قصہ پڑھا گیا، وہ حدیث نہیں تھی ، اور نہ کوئی حلال یا حرام کا تذکرہ تھا ، بلکہ عبرت کا ایک تازیانہ تھا ، تعلیم کے بعد ایک شخص نے حوالہ پوچھا ، حاشیہ میں دیکھ کر حوالہ بتا دیا گیا ، سائل نے پھر کہا کہ اس قصہ کو نقل کرنے والا کون ہے ؟ میں نے کہا کہ اصل کتاب میں راوی کا ذکر مل جائے گا، انہوں نے اور کچھ سوالات کئے جن کا مقصد روایت کا درجہ معلوم کرنا تھا ، عاجز نے اخیر میں کہہ دیا کہ یہ تاریخی روایت ہے حدیث نہیں ہے ، اس میں حدیث کی طرح سند اور رواۃ کی تفتیش لغو ہے۔
یہ تو ایک واقعہ ہے اور فی الحقیقت بہت سے ذہنوں کی ترجمانی ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ نصیحت حاصل کرنے اور عبرت پکڑنے کے موقع پر ایسے لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں ، اور تاریخی روایتوں کی چھان پھٹک میں الجھ کر بڑے عبرتناک واقعات سے بھی وہ اثر نہیں