فرماتے ہیں :
و ھذا التاکید و اللزوم فی طلب الاسناد انما یتعلق بالامور التی یتعلق بالشرع اصالۃ او تبعا۔
’’یعنی طلب اسناد میں یہ تاکید ان ہی امور میں ہے جن کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ شرع سے ہے‘‘۔
اگر بیان کی جانے والی بات کا تعلق شریعت سے نہیں ہے تو اس کے بیان کرنے میں سند لازم نہیں ہے، اگر ان واقعات کی معتبر سند مل جائے تو بہت اچھا ، بصورت دیگر ان واقعات کے ذریعہ عبرت حاصل کرنے اور قلوب کو اعمال صالحہ پر آمادہ کرنے سے تو کوئی چیز مانع نہیں ہے ، خطیب بغدادی ؒ لکھتے ہیں :
واما اخبار الصالحین و حکایات الزھاد و المتعبدین و مواعظ البلغاء و حکم الادباء فالاسانید زینۃ لھا و لیست شرطا فی تأدیتھا۔ (نوادر الحدیث ۴۱)
’’اور رہے صالحین کے واقعات اور زاہدین وعابدین کی حکایتیں اور بلغاء اور ادباء کی حکمت و نصیحت کی باتیں تو ان میں اسناد زینت ہے ، ان کے بیان کرنے میں اسناد ضروری نہیں ہے‘‘۔
سعید بن یعقوب ؒ کہتے ہیں کہ ہم نے عبد اللہ ابن مبارکؒ سے سوال کیا کہ ہم کتابوں میں نصیحت کی باتیں پاتے ہیں تو کیا ہم ان کو دیکھ سکتے ہیں ؟ تو ابن مبارک ؒ نے جواب میں فرمایا :