ہے کہ صلاۃ الرغائب اور شب برا ء ت اور شب قدر کی نمازوں سے عوام کو نہ روکا جائے ، اس پر علامہ شامی ؒ نے حاشیہ لگا کر رحمتیؒ کی یہ بات نقل کی ہے:
ویمنع التوثق بذلک الخط اجماعھم علی حرمۃ العمل بالحدیث الموضوع و قد نصوا علی وضع ھذہ الصلوت۔(شامی ۳؍۴۹)
’’موضوع حدیث پر عمل کے حرام ہونے پر علمائے کرام کا اجماع اس تحریر پر اعتماد کرنے سے مانع ہے ، اور علماء نے ان نمازوں کے موضوع ہونے کی صراحت کردی ہے‘‘۔
علامہ شامی کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ علامہ حصکفیؒ نے جو لکھا تھا کہ’’معتبر عالم کی تحریر سے لکھا ہوا ہے کہ صلاۃ الرغائب اور شب برا ء ت اور شب قدر کی نمازوں سے عوام کو نہ روکا جائے‘‘ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ جب ان کا موضوع ہونا مصرح ہے اور موضوع روایت پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، تو پھر اس پر عمل کرنے کی بات معتبر عالم کیسے کہہ سکتا ہے، اور وہ تحریر قابل اعتماد کیسے ہو سکتی ہے؟اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ موضوع حدیث میں مذکور کسی فضیلت پر عمل کرنے کی بات کسی عالم کی طرف منسوب ہو یا کسی کتاب میں لکھی ہو ئی ہو پھر بھی کسی حال میں قابل اعتماد اور لائق عمل نہیں ہے ۔
علماء نے ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے لئے شرط لگائی ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو ، بلکہ ضعف خفیف ہو ، اگر ضعیف میں ضعف شدید ہے تو اس پر بھی عمل جائز نہیں ہے ، جب ضعیف کے متعلق یہ حکم ہے تو موضوع حدیث تو اس سے بھی گئی گزری ہے ، لہذا اس پر بدرجۂ اولی عمل جائز نہیں ہوگا۔