موضوع حدیث کے درمیان جس فرق کو بیان کیا تھا غیر مقلدین نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی، اور ضعیف اور موضوع کو برابر کردیا، اس سلسلہ میں ان کی ناپاک حرکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ماضی قریب میں عالم عرب کے ایک عالم البانی نے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی ، اس میں موضوعات کے ساتھ ضعیف احادیث کو بھی داخل کر دیا ہے ، دونوں کے درمیان کی دوری کو ختم کرنے کی انجانی کوشش کی، اس انداز نے ضعیف احادیث کو بڑا نقصان پہنچایا ، حتی کہ اس کتاب کے عقیدت مندوں کے یہاں موضوع اور ضعیف کا یکساں شمار ہونے لگا ، دونوں کے درمیان واضح مسافت کو ختم کرکے دونوں کو ایک درجہ میں لا کھڑا کیا ہے، اور اس ذہنیت میں کمًّا و کیفاً اضافہ ہوتا جا رہاہے، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم نے اپنے خطبات میں اس زہر سے امت کو آگاہ کیا ہے، آپ کے خطبات کا مجموعہ ’’علمی خطبات‘‘ (۱؍۹۱-۹۲) میں دیکھ لیا جائے۔
نیز البانی نے اپنی بدبختی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک کام یہ کیا ہے کہ متقدمین کی بہت ساری کتابوں کو دو حصوں میں منقسم کردیا، ایک حصے میں صحیح اور حسن درجے کی روایات جمع کیں اور دوسرے حصے میں ضعیف اور موضوع روایات جمع کیں، جیسے سنن ترمذی کے دو حصے کردئیے ، ایک ’’صحیح الترمذی‘‘ اور دوسرا ’’ضعیف الترمذی‘‘، اسی طرح منذری کی ’’الترغیب والترہیب‘‘ کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ اور ’’ضعیف الترغیب والترہیب‘‘، ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ میں صحیح اور حسن درجہ کی روایتیں شامل کیں، اور ’’ضعیف الترغیب