کہ کیا آپ کو اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ جس لوگوں کو متہم گردان کر ان کی روایات کو احادیث کو ترک کردیا ہے وہ کل قیامت میں آپ کے مقابل کھڑے ہوجائیںگے، آپ نے جواب دیا
لان یکون ھؤلاء خصمائی احب الی من ان یکون النبی ﷺ خصمی لم لم تذب الکذب عن حدیثی۔
’’یہ لوگ میرے مقابل ہوں وہ مجھے زیادہ محبوب اس بات سے کہ رسول اللہ ﷺ میرے مخالف بن کر کھڑے ہوں اور مجھے سے باز پرس کریں کہ میری حدیث سے جھوٹ کو کیوں نہیں روکا۔
محمد بن بندار ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ سے کہا کہ فلاں آدمی ضعیف ہے اور فلاں راوی کذاب ہے یہ کہنا مجھے بڑا بھاری معلوم ہوتا ہے، تو امام احمد ؒ نے فرمایا کہ اگر تم خاموش رہے تو جاہل اور عامی آدمی صحیح اور غلط کی پہچان کیسے کرے گا۔
حضرت سفیان ثوری ؒ ایک آدمی کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ یہ آدمی کذاب ہے، بخدا اگر میرے لئے خاموش رہنا جائز ہوتا تو میں ضرور خاموش رہتا۔
امام اعمش جب بصرہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک واعظ مسجد میں وعظ کہہ رہا ہے، اور اعمش کے واسطے سے احادیث بیان کررہا ہے، امام اعمش ؒ اس حلقے کے بیچ میں جاکر بیٹھ گئے اور اپنے بغل کے پال اکھاڑنے لگے، اس واعظ نے کہا کہ اے شیخ کیا شرم نہیں آتی، یہاں علم کی باتیں ہورہی ہیں اور تم یہ کام کررہے ہو، امام اعمشؒ نے کہا میری یہ مشغولی تیری مشغولی سے بہتر ہے، اس واعظ نے کہا یہ کیسے؟ امام اعمش ؒ نے فرمایا کہ میرا یہ کام سنت ہے اور تیرا کام جھوٹ بولنا ہے، میں ہی اعمش ہوں، اور میں نے کبھی تجھے یہ حدیث بیان نہیں