اس وقت کوئی حدیث تلاش کی جائے لیکن نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتابوں میں اس کا پتہ ہو ۔
امام بیہقی ؒلکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
من جاء الیوم بحدیث لا یوجد عند الجمیع لا یقبل۔
’’جو کوئی آج ایسی حدیث بیان کرے جو کسی محدث کی کتاب میں نہیں ملتی تو وہ قابل قبول نہیں ہوگی‘‘۔( احسن الفتاوی ۱۰/۱۲۴)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ان احادیث پر جن کا سراغ متقدمین کے یہاں نہیں ملتا کچھ کلام کرنے کے بعدتحریر فرماتے ہیں کہ :
وعلی کل تقریر ایں احادیث قابل اعتماد نیستند
’’بہر صورت یہ احادیث قابل اعتماد نہیں ہے‘‘۔
( احسن الفتاوی ۱۰؍۱۲۴ بحوالہ عجالۂ نافعہ )
مفتی رشید احمد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ :
کتب متقدمین میں کسی حدیث کا وجود نہ ملنا اس کے موضوع ہونے کی دلیل ہے۔ ( احسن الفتاوی ۱۰؍۱۲۴)
متقدمین سے مراد چار صدیوں کے علماء ہیں اگر چار صدیوں کے بعد کوئی عالم ایسی روایت بیان کرے جو اول چار صدیوں میں لکھی ہوئی کتابوں میں نہ ہو تو وہ ناقابل قبول ہوگی۔ (احسن الفتاوی ۱۰؍۱۲۵)