ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
|
درخت لگایا اور کہنے لگا کہ پھل نہیں آیا ۔ اس سے صاف دعوے استحقاق ٹپکتا ہے صاحب خدا تعالٰے سے نوکری کا معاملہ نہیں جو استحقاق اجرت کا ہو ۔ غلامی کا تعلق ہے پھر دعوے استحقاق کیسا ۔ مثلا اگر آقا اپنے غلام سے کہے کہ پانی پلاؤ وہ کہے کہ کیا ملے گا وہ غلام بڑا نالائق ہے ۔ ایک تکبر کی قسم یہ ہے کہ تواضع پر تکبر ہوتا ہے کہ ہم میں تکبر نہیں ۔ گو کا کیڑا سمجھے کہ میں گو کا کیڑا ہوں ۔ یہ کون سی خوبی کی بات ہے میرے دوستوں نے فتاوے کا نام فتاوے اشرفیہ رکھ دیا تھا ۔ اس سے بہت شرم معلوم ہوتی ہے آخر امداد الفتاوے نام بد لا ۔ پس اپنے ملفوظ اپنی رائے سے ضبط کرنا کیا معنی مرید کو چاہیے کہ اپنے واردات کو شیخ کے سامنے پیش کرے ۔ جیسے اولاد جو کچھ کماوے وہ ماں باپ کے سامنے رکھ دے کہ یہ کمایا ہے ان افعال کی بدولت احوال سلب ہوجاتے ہیں پھر فرمایا کہ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اگر مرید سے کوئی لغزش ہوتو سب مجمع میں اس کو آگاہ کرے ۔ میں ایک مرتبہ فاتحہ خلف الامام پڑھنے لگا ۔ مولانا رشید احمد صاحب کو میں نے لکھ بھیجا پھر میری رائے بدل گئی ۔ اس کی بھی میں نے اطلاع کردی ۔ پھر فرمایا کہ عوام لوگ متکبر کو بڑا سمجھتے ہیں اوتر متواضع کو چھوٹا ۔ بزرگ عاصیین فساق وفجار کو بھی کسی درجہ میں معزور سمجھتے ہیں کہ قضاؤ قدر کا ان پر تسلط ہے صاف آنکھوں سے نظر آتا ہے پھر فرمایا کہ میرے اندر یہ ایک عیب ہے کہ اہنے بزرگوں کی کوئی جانی خدمت نہ کی ۔ جیسے پنکھا جھلنا وغیرہ ۔ یہ خیال کیا کہ خدا جانے مجھ سے ان کی مرضی کے موافق بن پڑے یا نہ بن پڑے اتنی بے تکلفی نہ ہوئی کہ کوئی خدمت ناپسند ہوتو وہ بزرگ مجھ سے کہدیں ۔ دوسرے یہ کہ اکثر بزرگ حتٰی کے اپنے شیخ لحاظ کرتے تھے جیسے اپنے بڑے بیٹے کا میں نے یہ خیال کیا کہ اگر میں نے خدمت کی تو ان کو کلفت ہوگی ۔ پھر فرمایا کہ مولانا فتح محمد صاحب میرے استاد تھے ایک بار وہ مظفر نگر میں مقیم تھے میرا بھی جانا ہوگیا تو عشاء کی نماز کے بعد میں ان کے ساتھ چلا استنجے خانے کی ضرورت تھی ۔ میں نے عرض کیا کہ میں ناواقف ہوں کہ کسی خادم کو حکم دیجئے ۔ کہ ڈھیلے اور پانی مجھ کو بتلادے ۔ مولانا استنجے کے ڈھیلے اور پانی خود پاخانہ میں رکھ آئے ۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مغلوب الحال تھے ۔ اپنے شاگردوں کو محزوم ومکرم لکھتے تھے پھر فرمایا کہ فانی وہ ہے جسے یہ بھی برنہ ہو کہ میں فانی ہوں ۔ پھر فرمایا کہ اب لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اذکارو اشغال بتلا کر ہمارے افعال سے تعرض نہ کریں ۔ جس وقت آدمی اپنے کو اچھا لگتا ہے اس وقت خدا کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے اب ہر شخص سوچ لے کہ دن میں کتنی مرتبہ اس کی ایسی حالت ہوتی ہے بعد