ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
حق پیر بھی نذارانہ بیعت کے وقت لے لیتے ہیں اور فی نفسہ اس میں کوئی خرابی بھی نہ تھی ۔ مگر مجھے تجربہ سے اس میں یہ احتمال ہوا کہ یہ بھی مفسدہ ہے لیتے دیتے دیکھ کر غرباء کی ہمت بیعت کی نہ ہوگی یا ان کی فکر کرنا پڑیگی ۔ الہ آباد میں ایک شخص نے بیعت کرکے کچھ ہدیہ پیش کیا ۔ میں نے لوٹا دیا ۔ بس اسی وقت ایک شخص اٹھا اور یہ کہا کہ مجھے اشتیاق تھا ۔ مگر یہ سوچ رہا تھا کہ کیا پیش کرونگا ۔ اسی طرح ضلع اعظم گڑھ میں ایک اپنے گھر لے گئے اور نذارانہ دیا میں نے کہا یہ طریقہ نہیں ہے دینے کا اسکے تو یہ معنی ہیں کہ میں اسی لیے آیا تھا اس میں میری اہانت ہے دوسرے یہ کہ کسی غریب کی ہمت نہ ہوگی ۔ کہ اپنے گھر لے جاسکے ۔ وہ اس بات کا برا مان گئے مگر اس کے بعد پھر بہت سے شخص اپنے گھر لے گئے کسی نے کچھ جلیبی پیش کر دی ۔ کسی نے شربت ہی پلا دیا ۔ اگر ان پہلے صاحب سے انکار نہ کیا جاتا تو ان بیچارے غریبوں کی ہمت نہ ہوتی ۔ اللہ میاں نے فورا ظاہر بھی کردیا ۔ گلاو ٹھی میں ایک غریب شخص نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم امیر لوگوں نے مولویوں کو پلاؤ کھلا کھلا کر ہم غریبوں کی راہ مار دی ۔ ہم تو دال کھلا سکتے ہیں پلاؤ کھلا سکتے نہیں ۔ اس لیے ہم ان کو اپنے مکان پر بلانے یا وعظ کہلوانے سے محرومی رہتے ہیں ۔ مولویوں کو چاہیے کہ دعوت میں خود ہی سادہ کھانا تجویز کردیا کریں ۔ میں تو اکثر ماش دال بتلادیتا ہوں ۔ جاننے والوں میں اس بات کی شہرت بھی ہوگئی ہے ایک پیشہ رو واعظ مولوی کی حکایت ہے کہ ڑڑ کی میں ایک شخص نے ان کو دعوت کی کہنے لگے کہ اکثر لوگ میری مرضی کے موافق کھانا نہیں پکاتے ۔ نمک مرچ زیادہ کر دیتے ہیں ۔ میری ماما سدھی ہوئی ہے دعوت کے بس پانچ روپیہ دیدو ۔ میں خود پکوالوں گا ۔ ایک غریب نے کہا کہ میرا دل تو کھلا نے ہی کو چاہتا ہے جب وہ سر ہوا توکہنے لگا کہ اچھا جنس دیدو یا پکا ہوا گھر بھیج دو ۔ اس بیچارے نے پکا کر گھر بھیج دیا ۔ وہ ان سب چیزوں کو مسجد میں اٹھا کر لائے اور بعد نماز کے کہا کہ سب لوگ ٹھہر جاویں سب سامان دکھلایا اور کہا کہ اسے ایسا کھانا بھتیجے ہوئے شرم نہیں آتی ۔ غرض بہت ناراض ہوئے یہ اس لیے کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے کیسے غضب کی بات ہے ۔