بجاتھا ،مولانا مجھے ڈانٹنے لگے کہ تم باسی کی عربی نہیں جانتے تو عربی دوم میں کیسے آگئے،تم کو عربی اول میں کردیاجائے گا ،میں گھبرایا کہ یااللہ کہیں یہ نیچے گراہی نہ دیں ،خیر ہنس کراورمجھے ذلیل کرکے اس نے عربی بتادی ،میں نے طے کرلیاکہ اب کسی سے کچھ نہ پوچھوں گا،مولاناہی کے پاس اردوعربی کا ایک چھوٹا سا لغت تھا ،القاموس الجدید اسے ان سے لیکر میں مسلسل الٹتا پلٹتارہا،یہاں تک کہ اس کا ایک بڑا حصہ میرے ذہن میں محفوظ ہوگیا ، پھر کبھی خفت نہیں اٹھانی پڑی،مولانا نے مجھے دومرتبہ ڈانٹا، ایک مرتبہ تویہ ، اوردوسری بار جب سالانہ امتحان قریب تھا اس کی تیاری ہورہی تھی،القرأۃ الرشیدہ میں ایک لفظ وافیٰ آیا، نہ جانے اس وقت ذہن کہاں سوگیاتھا،بہت زور لگا یا مگر سمجھ میں نہیں آیا ،میں بھولی ہوئی بات طلبہ سے بالکل نہیں اور اساتذہ سے بھی کم پوچھتا تھا ،از خود ہی حل کرنے کی کوشش کرتارہا ،بہت کوشش کی مگر وہ حل نہیں ہوا، مجبور ہواتومولانا کے پاس پوچھنے چلاگیا، بہت خفا ہوئے کہ اتناآسان لفظ تم کو سمجھ میں نہیں آتا، باب مفاعلت سے ماضی ہے ،میں بہت شرمندہ ہوا، پھر بحمداللہ پوچھنے کی نوبت نہیں آئی۔
تجوید قدرے پڑھ کر آیاتھا ،مولانا عزیزالرحمن صاحب نے کچھ دنوں بھیرہ میں ہم لوگوں کو تجوید پڑھائی تھی ،میں قرآن صحیح پڑھ لیتاتھا بہت سے قواعد بھی معلوم تھے، قاری حمادصاحب نے تجوید کی مشق کرائی اورتجوید کی متعدد کتابیں پڑھائیں ۔قاری صاحب شیخوپور کے رہنے والے ہیں ،جہاں اب میں مدرس ہوں ، اسی سال دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر آئے تھے ، اورشعبہ تجوید میں ان کا تقرر ہواتھا، بہت مہربان اورشفیق تھے بڑی محنت سے پڑھاتے تھے ۔
اس جماعت کی سب سے اہم کتاب ہم لوگوں کیلئے علم الصیغہ تھی، کیونکہ اس کا سبق مولانا محمد مسلم صاحب کے پاس تھا، مولانا اگر چہ نوجوان تھے مگر طلبہ پر ان کااثر سب سے زیادہ تھا، ان کاایک خاص رعب اوروقار تھا، ان کاانداز تعلیم بہت ہی پیارا اوردلنشیں تھا،اپنے فطری رعب ووقار کے باوجود طلبہ میں بہت مقبول ومحبوب تھے، انھوں نے پہلے ہی