مولانا کا انبساط دیدنی ہوتا، خوب باتیں کرتے ، پڑھنے لکھنے کی ، محنت کرنے کی ، حوصلہ افزائی کی باتیں ، اس گفتگو میں لطائف وظرائف بھی ہوتے ، سنجیدہ حکایات بھی ہوتیں ، برمحل اصلاحات بھی ہوتیں ، اور جب طلبہ وہاں سے رخصت ہوتے تو اپنے اپنے دلوں میں کچھ کرگزرنے کا حوصلہ اور تعلیم میں ترقی کی امنگ لے کر جاتے ۔ میں جدید طالب علم تھا ، اس محفل میں صرف وہی طلبہ بار پاتے تھے جو پہلے سے مولانا کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوتے ، مگر چونکہ میرا امتحانِ داخلہ مولانا نے لیا تھا اور اس کے بعد چند مواقع ایسے آئے کہ میں بھی مولانا کی نگاہوں میں آگیا، اور انھوں نے اس محفل میں شرکت کی سعادت بخشی ۔ مولانا کی ان مجالس سے طلبہ کو تعلیمی اور تربیتی دونوں فوائد حاصل ہوتے ۔ ان مجالس میں محنت ومجاہدہ کا حوصلہ بھی بیدار ہوتا ، پڑھنے کا سلیقہ بھی آتا ، انسانیت اور اس کے آداب برتنے کا شعور بھی حاصل ہوتا ، مولانا ہم لوگوں کے لئے نمونہ تھے ، جو طلبہ مولانا کے درس میں شریک ہوتے ، وہ دوسرے طلبہ کے مقابلے میں نمایاں ہوتے۔
ایک تاسف کاازالہ:
میں دار العلوم بڑی امنگوں اور حوصلوں سے معمور ہوکر گیا تھا ، دار العلوم کے اساتذہ اور وہاں کے طلبہ کی عظمت دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی ، جب تعلیم شروع ہوئی اور ایک دوماہ گزر گئے ، سہ ماہی امتحان قریب آچلا تھا ، تو مجھے یہ دیکھ کر ایک طرح کی مایوسی بھی ہورہی تھی اور تاسف بھی !کہ طلبہ میں تعلیم ، مطالعہ ، مذاکرہ اور پڑھنے کے لئے شب خیزی کافقدان ہے۔ میں روزانہ صدر دروازہ پر فٹ بال ، والی وال، کرکٹ وغیرہ کے مقابلے کے اعلانات دیکھتا ، مختلف ناموں سے کلب تھے ، اور ہر روز کسی کلب کا دوسری کلب سے مقابلہ ہوتا ، اور اس کے لئے خوبصورت ، دیدہ زیب اور رنگین اعلان نکالے جاتے ، مجھے یہ دیکھ کر بڑی وحشت ہوتی ، کتابوں میں لگے لپٹے رہنے والے برائے نام دکھائی دیتے ، کھیل کے میدان میں خوب جمگھٹا رہتا ، مجھے کھیل کا بالکل ذوق نہ تھا ، طلبہ کے ان کھیلوں اور مقابلوں کو دیکھ دیکھ کر میں سخت مایوسی کا شکار ہوتا ۔ ایک روز میں نے اپنے کمرے میں جس میں دس طلبہ