سوچتاہوں ، تو ذہن کے پردے پر اس وقت کی تصویر یں صاف دکھائی دے رہی ہیں ، نیچے دسترخوان پر الوان واقسام کی نعمتیں چنی جارہی ہیں ، رمضان میں یوں بھی دسترخوان کی وسعت بڑھ جاتی ہے، اس میں تنوع پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کم سے کم حیثیت کا مسلمان بھی کرتا ہے ، اور یہاں تو ناظم صاحب کا دسترخوان تھا، جو اپنی کشادہ دستی اور حسن میزبانی میں مشہور تھے ، مگر ہم دونوں … یادش بخیر… الطاف کے پاس ایک عجیب وغریب برتن تھا ، جسے وہ ’’کوکر‘‘ کہتے تھے ، نہ میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا کوکر دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد ! ہوبہو ٹفن کیریرسمجھئے ، اس میں چار ڈبے تھے ، نیچے کے ڈبے میں پانی بھرا جاتا تھا، اس کے اوپر تین ڈبوں میں حسب مرضی چاول، دال اور گوشت یا ترکاری مع ان کے لوازم کے ڈال دیاجاتا، پھر سب کو باہم پیوست کرکے، ایک طویل القامت ڈبے میں ڈال کر اسے اوپر سے بند کردیا جاتا، اس طویل ڈبے کے نچلے حصے میں ایک انگیٹھی تھی ، اس میں کوئلہ جلادیا جاتا، گھنٹے بھر میں بھاپ کے اثر سے سب کچھ پک کر تیار ہوجاتا، روکھاپھیکا! بے لذت! ہم لوگ اسی حالت میں اسے کھالیا کرتے ،اور بس! یہی سحری میں بھی اور یہی افطار میں بھی!
(۳)
ماضی کی دور دراز وادیوں میں ، ادراک کی نگاہوں پر حافظہ کی دوربین چڑھاکر دیکھتاہوں ، تو بھی ان کتابوں کا تشخص صاف طور پر نہیں ابھرتا، جن کی محویت میں صبح کی حدیں شام کے ساتھ ، اور شام کا دامن صبح کے ساتھ اس طرح پیوست رہا کرتاتھا کہ حد فاصل قائم کرنا مشکل ہوجاتا، البتہ اتنا نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ اس وقت تاریخ اور ادب عربی کا ذوق غالب تھا ، انھیں دونوں موضوعات پر عموماً ذہنی اور دماغی سفر ہواکرتاتھا ، اگر اس وقت یادداشت کا کوئی روزنامچہ مرتب کئے ہوتا، تو آج مطالعہ کی داستانِ بہار سنانے میں بڑی سہولت ہوتی، لیکن تحریر سے بے نیازی اس حدتک بڑھی ہوئی تھی کہ اپنی یادداشت تو کیا رکھتا، مدرسہ کے کتب خانہ کا قانون تھا کہ کتاب خواہ ایک ہی گھنٹے کے لئے نکالی جائے ، اس کا اندراج رجسٹر میں ہونا ضروری ہے، مگر میری لاابالی طبیعت ، پابندی کی اس زنجیر گراں سے