ایک وقتی دلچسپی
۱۹۶۷ء میں عرب اوراسرائیل جنگ ہوئی تھی ، اس میں عربوں کو شکست ہوئی اور اسرائیل کا بیت المقدس پر تسلط ہوگیا ، یہ اتنا دردناک سانحہ تھا کہ تمام دنیا کے مسلمان بلبلا اٹھے تھے ، خاص طور سے ہندوستان کے مسلمان بے حد متاثر ہوئے تھے ، اسرائیل کے مظالم نے فلسطین اور بیت المقدس کے مقامی باشندوں کو گھر سے بے گھر کردیا ، یہ جابجا کھلے آسمان کے نیچے ، کہیں خیموں میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کردئے گئے تھے ۔ اس درد کو جمعیۃ علماء ہند نے محسوس کیا ، جمعیۃ علماء کی طرف سے ملک کے مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ ان پناہ گزینوں اور بے گھروں کیلئے مالی تعاون کریں
ایک تو بیت المقدس قبلۂ اول کے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا صدمہ ، پھر وہاں کے مسلمانوں کا حال زار ! اہل درد تڑپ تڑپ گئے ۔ میں اس وقت عربی چہارم میں تھا ، استاذ محترم حضرت مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ اس وقت سخت مضطرب تھے ، ہم لوگوں کو تیار کیا ، تقریر لکھ کر دیں کہ انھیں کی روشنی میں گاؤں گاؤں جاکر فلسطینی مظلوموں کے لئے چندہ جمع کریں ، چنانچہ ان دنوں کوئی جمعرات اور جمعہ خالی نہ جاتا تھا ، کہ ہم لوگ اطراف کے مسلمان گاؤں میں نہ پھیل جائیں ، ہم میں سے کئی طلبہ کو تقریر وخطابت کا ملکہ تھا ، انھیں کی سربراہی میں کئی کئی طلبہ کو ساتھ لگادیتے ، اس وقت ہم لوگوں کی شعلہ بیانی عروج پر تھی ، ایسی تقریریں ہوتیں کہ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ، ہر جگہ چندہ کیاجاتا ، مسلمانوں نے دل کھول کر تعاون کیا ، یہ ساری رقم مولانا دہلی بھیج دیتے ، وہاں سے مظلوموں تک پہونچانے کانظم تھا۔
وہ بڑے جوش اور درد کا زمانہ تھا ،ا خبارات اس موضوع سے بھرے رہتے تھے ، مولانا بھی شعلہ ٔ جوالہ بنے ہوئے تھے ، وہ خود بھی دورہ کرتے ، اور مسلمانوں کو ترغیب دیتے ، مولانا مقرر وخطیب نہ تھے ، لیکن اس موقع پر دیکھا کہ متعدد جگہوں پر ان کی تقریریں ہوئیں ،