جن کی شہ پر دم بہ دم ہرہرقدم بڑھتا گیا پیرِ میخانہ کے ہاتھوں خم پہ خم ڈھلتا گیا
جنکے جانے سے میری دنیائے دل ہی لٹ گئی ظلمتیں اتنی بڑھیں کہ روح میری گھٹ گئی
کتنے ذرے ،جن کے پَر تو سے مہِ کامل بنے بتکدے وحدانیت کے نور کے حامل بنے
خاک پر بیٹھے ہوؤں کو عزت ورفعت ملی ان کے فیضِ علم سے عظمت ملی شہرت ملی
دین کے کتنے قلعے تعمیروہ کرتے رہے جہل کے اڈوں کو علم وفضل سے بھرتے رہے
لال دروازہ کی مسجد نوحہ خواں ،ویران تھی ایک مدت سے پڑی برباد تھی ، سنسان تھی
ایک مردِ غیب کی تھی منتظر بے برگ وبار اسکے معماروں کی روحیں مضطرب تھیں بیقرار
روح سجدوں کی خس وخاشاک میں تھی دلفگار منبر ومحراب فرطِ غم سے تھے زارونزار
پھر وہ مردِ غیب آیا اک طرف سے ناگہاں بندھ گیا آمد سے اس کی ایک روحانی سماں
اس کا آنا تھا کہ یک دم چھٹ گئی گردِ ملال ہوگئی پھر وہ زمیں سجدوں کی کثرت سے نہال
علم وفن کا ایک چشمہ پھر ہوا جاری یہاں ذرہ ذرہ دین حق کا بن گیا ہے ترجماں
ہاں ! وہی مردِ مجاہد ہم سے رُخصت ہوگیا علم کا جادو جگاکر خلد میں جا سوگیا
ان کے اعجازِؔکرم کا ہر طرف چرچا ہوا دشت ودریا کوہ وصحرا قریہ قریہ جابجا
٭٭٭٭٭
غزل
مبارک ہوتجھے اے دل کہ اس کی آرزو پائی
طلب پائی ہے اس کی اور تلاش وجستجو پائی
دلِ بے مدعا پایا کہ دنیا کی ہوس نکلی
دلِ بامدعا پایا کہ تیری آرزو پائی
سبھی جھگڑوں سے ہم چھوٹے تمنا دل کی بر آئی
ہوس دنیا کی نکلی اور تیری آرزو پائی
پڑا رہ تو اسی در پر،پڑا رہ تو اسی در پر
یہیں حاصل ہوئی ہے جس نے جو کچھ آرزو پائی
عنایت ہے، نوازش ہے، کرم ہے، مہربانی ہے
محبت تیری دل نے اور میں نے ہاوہو پائی
زہے قسمت، زہے خوبی یہ کیا ہی خوش نصیبی ہے
کہ اس کی آرزو پائی ، اسی کی جستجو پائی
اسی یاد اے ہمدم رہے میں مرے قائم
ترے درپر جو ہم آئے یہی ہے آرزو لائی