سے اسے دیکھا کرتا ہوں ، مبادا یادوں کی رواروی میں ، یہ ہلکا سا نقش مٹ نہ جائے ، میں اس وقت اکثر سنا کرتا تھا ، اور اب بھی کبھی کبھی تذکرہ ہوتا ہے کہ میری ماں بہت سلیقہ مند، عاقل اور نیک خاتون تھی، میرا خیال ہے کہ یہ بات صحیح ہے، کیونکہ میری خالہ جس کا ابھی چار پانچ برس ہوئے انتقال ہوا ہے ، اس کی سلیقہ شعاری اور نیک بختی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
آہ! میری خالہ! اس کا تذکرہ کہیں تفصیل سے کروں گا، کہ میرے اوپر اس کے حقوق بہت ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ میری ماں اس سے بڑھ کر تھیں ، ان دنوں جبکہ میں دیوبند جانے کی تیاری میں ہوں ، ہر طرف خوشی کی برسات ہورہی ہے، اس روح پرور ساون کی پھوار میں درد کی کوئی کسک اگر محسوس ہوتی ہے ، تو وہ اماں کی یاد ہے، میں کچھ سوچ نہیں پارہا تھا کہ اماں ہوتی تو میرے لئے کیا کرتی، بس ایک میٹھی میٹھی مجمل سی یاد اٹھتی تھی ، اور میرا دل بیٹھا جاتی تھی ، میں اس کا تذکرہ بھی کسی سے نہیں کرپاتا تھا ، بس یونہی کبھی گم سم ہوجاتا، پھر بیدار ہوجاتا، یہی کیفیت اب بھی محسوس ہوتی ہے، ایک مجمل اور مبہم سی یاد! البتہ اب اس میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ یاد آتے ہی دل کا ساغر بھر آتا ہے اور آنکھیں چھلک پڑتی ہیں ، اس وقت اتنا شعور کہاں تھا ؟
(۵)
آج ۶؍ شوال ہے، کل صبح سب سے مل کر، بڑے بوڑھوں کی دعائیں لے کر مبارک پور جاؤں گا، وہاں سب رفقاء اکٹھے ہوں گے ، مدرسہ کے درودیوار سے رخصت ہوکر پرسوں ٹرین پر سوار ہونا ہے، الطاف شاہ گنج میں ملیں گے ، یہی خیالات تھے کہ غروب ہوتے ہوئے آفتاب نے ابھرتے ہوئے اندھیرے کے کان میں نہ جانے کیا پھونک دیا کہ وہ رات کی سیاہ چادر میں چھپاکر لرزہ بخار لیتا آیا، اور میرے وجود کو کپکپا کر رکھ دیا، ۷؍ شوال کی صبح طلوع ہوئی تو میرے بدن کی توانائی غروب ہورہی تھی ، میں بستر پر پڑا تڑپ رہا تھا ، دل ودماغ میں ہیجان برپا تھا ، شوق واشتیاق کی تندی میری ناتوانی کو جھنجھوڑ رہی تھی ، لیکن لرزہ نے سارا کس بل نکال دیا تھا ، بخار اس شدت کاتھا کہ ہوش وحواس شکست کھارہے تھے ، والد