تھے میں حدیث نبوی کی مسلسل قرأت کررہاتھا،ا سی دوران مجھ پر ایک ربودگی کی سی کیفیت طاری ہوئی ،اسی حالت میں پڑھتے پڑھتے میری نگاہ باہر کی طرف اٹھ گئی،میں نے دیکھاکہ رسول اللہ اچند اصحاب کے ساتھ ایک طرف جارہے ہیں ،احرام جیسالباس زیب تن فرمائے ہوئے ،چہرہ ٔ اقدس دوسری طرف تھا،میں نے پیچھے سے دیکھا خوبصورت زلفیں تھیں چندے زیار ت ہوئی پھر وہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
(۳)ٹرین میں ایک شاعر سے ملاقات
امروہہ کی طالب علمی کے دوران ایک بار مولوی طاہر صاحب،مولوی عزیزالرحمن صاحب اورمیں دیوبند جارہے تھے ،مولوی عزیزالرحمٰن ایک زود گو شاعرتھے ،مولوی طاہر صاحب بھی شعر کہہ لیتے تھے ،میں کوراتھا، لیکن شعر سمجھتاتھا، ٹرین میں بیٹھے بٹھائے مشغلہ سوجھا، مولوی عزیزالرحمٰن صاحب کا تخلص شہیدؔ تھا، انھوں نے اپنی تازہ غزل جو بہت مرصع تھی،سنانی شروع کی، مولوی طاہر صاحب نے عروض کے لحاظ سے اس میں کوئی غلطی بیان کی،پھر دونوں میں بحث شروع ہوگئی درمیان میں میں بھی بول پڑتاتھا، ہم لوگوں کی بحث سن کر دہلی کے ایک شاعر جو ڈبے میں بیٹھے تھے اٹھ کر آئے اورشریک بحث ہوگئے، پھر انھوں نے عروض کی ضرورت پر مبالغہ کے ساتھ زوردیا،کہنے لگے کہ اب شاعر عروضی نہیں ہوتے اورمولوی فروضی نہیں ہوتے، یعنی میراث کی تقسیم نہیں جانتے، انھوں نے کچھ زیادہ مبالغہ سے کام لیا۔
میں نے مولوی طاہر صاحب کو اشارہ کیاکہ آپ نہ بولیں کیونکہ وہ خود عروضی تھے اوران کی بحث کاجواب میر ے بس کی بات نہ تھی وہ سمجھ گئے، پھر میں نے عروض کے خلاف ایک مفصل تقریر کرڈالی، اس سے وہ بہت متأثر ہوئے اورمیرے ہم نواہوگئے، پھر بحث کا پیرایہ بندکردیاگیا، ان شاعر صاحب نے کہا آپ حضرات اپنا اپنا کوئی ایساشعر سنائیے،جو آپ کو خود پسند ہو ،مولوی عزیزالرحمٰن صاحب نے متعدد شعر سنائے مولوی طاہر صاحب نے بھی سنائے، مجھ سے انھوں نے کہا میں نے معذرت کی کہ میں شاعر نہیں ہوں ،انھوں نے کہایہ کیسے ہوسکتاہے شاعری اوراشعار کے بارے میں آپ کی معلومات بہت ہیں ، اورآپ