بحث ومباحثہ
واقعہ یہ ہے کہ مطالعہ کے بعد اگر دلچسپی تھی ، تو دوستوں کی فرمائشوں کی تعمیل اور اپنے مطالعہ کا حاصل بیان کرنے سے تھی ، اس کے نتیجے میں بسا اوقات بحث ومباحثہ کی بھی نوبت آتی رہتی تھی۔
مبارک پور کے مناظرے کی داستان آپ پڑھ چکے ہیں ، ایک شیعہ سے مباحثہ ابھی آپ نے پڑھا ، مکتبی دورمیں ایک بریلوی رشتہ دار سے مباحثہ رہاکرتاتھا۔ مبارک پور کی طالب علمی کے دور میں باہم بھی بعض اوقات مباحثوں کی نوبت آئی ، مباحثے تو آپس میں متعدد ہوئے لیکن ایک مباحثہ کی یاد لوحِ دل پر محفوظ رہ گئی ہے۔
جمعرات کو عشاء کی نماز کے بعد انجمن جمعیۃ الطلبہ کے ہفتہ وار جلسے ہوا کرتے تھے ، آخر کے دوسالوں میں ان میں پابندی سے شرکت کرتاتھا ، بلکہ میری حیثیت ان جلسوں میں روح رواں کی ہوتی تھی ، یہ جلسے عموماً رات کوگیارہ بجے ختم ہوتے تھے ، جمعہ کو تعطیل رہتی تھی ، اس لئے وہ رات مطالعہ ومذاکرہ سے آزاد رہتی تھی۔ اس رات میں طلبہ کسی ایسے مشغلہ میں مصروف ہوتے جن کی عام دنوں میں گنجائش نہیں ہوتی ، ایسی ہی ایک جمعرات تھی ، ہماری انجمن کے صدر محترم حافظ توفیق احمد صاحب نے جلسہ سے فارغ ہوکر مولانا ابوالکلام آزاد کی ذات وخدمات سے متعلق ایک بحث چھیڑی ، ہمارا مدرسہ جمعیۃ علماء کا مرکز تھا ، سیاسی اعتبار سے اس وقت مدرسہ میں کانگریس کے علاوہ کسی اور پارٹی کا تصور نہ تھا ، مولانا عبد الباری صاحب علیہ الرحمہ ناظم مدرسہ کا تعلق جمعیۃ علماء سے بہت گہرا تھا ، مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ بھی جمعیۃ کے فداکار تھے ، میں نے ابتداء سے حضرت شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہٗ اور مولانا ابوالکلام آزاد کے حالات وسوانح پڑھ رکھے تھے ۔ مولانا آزاد کا انتقال ۱۹۵۸ء میں ہواتھا ، اس وقت میں اردو کی ہر تحریر پڑھ لیتا تھا ، گوکہ میری عمر صرف سات سال تھی، مگر پڑھنے کا جنون میرے وجود پر چھاچکاتھا۔