مدرسہ دینیہ غازی پور میں
شوال ۱۳۹۳ھ تا شعبان ۱۳۹۴ھ
میں ۱۰؍ شوال کوغازی پور پہونچ گیا ، عزیز صاحب نے نقد تنخواہ ۱۷۵؍ روپئے مقرر کی ، اور دونوں وقت کے کھانے کو تنخواہ کا جز قرار دیا ، گویا پونے دوسو نقد اور دو وقت کھانا تنخواہ ہوگی ، میں چونکہ اول روز طے کرچکاتھا کہ تنخواہ کے بکھیڑے سے کوئی تعلق نہ رکھوں گا ، اس لئے اس میں کسی قیل وقال کی گنجائش نہ تھی۔
مدرسہ دینیہ میں اس وقت عربی تعلیم تھی ،مگر برائے نام! طلبہ نہ ہونے کے درجے میں ، اساتذہ بھی نہ تھے ، مولانا مشتاق احمد صاحب علیہ الرحمہ صدر مدرس تھے ، وہ دفتری امور میں اس درجہ مشغول تھے کہ انھیں پڑھانے کا موقع بہت کم ملتاتھا ۔ عربی کے ایک مدرس مولوی جلال الدین صاحب تھے ، جن کی عربی کی استعداد بس واجبی تھی ، بلکہ واجبی سے بھی کم ، حفظ میں ایک مدرس حافظ محمد الیاس صاحب تھے ، پرائمری میں چند اساتذہ تھے ۔
عربی درجات کا حال یہ تھا کہ عربی چہارم میں دو طالب علم تھے ، عربی سوم میں ایک طالب علم ، عربی دوم میں کوئی نہ تھا ، عربی اول میں دوتین تھے ، فارسی میں یاد نہیں کوئی تھا یا نہیں ؟ چند طلبہ حفظ میں تھے ، دار الاقامہ میں زیادہ سے زیادہ دس پندرہ طلبہ تھے ، عربی چہارم اور سوم کی سب کتابیں میں نے اپنے پاس رکھیں ، عربی اول کی کتابیں مولانا مشتاق احمد صاحب اور مولوی جلال الدین کے درمیان تقسیم ہوئیں ، ہاں غالباً ترجمہ کلام پاک دونوں جماعتوں کے ان حضرات کے پاس تھے ۔
تعلیم شروع ہوئی تو میری طبیعت بہت گھبرائی ، بنارس میں طلبہ کی تعداد بھی اچھی