پروگراموں پر کسی طرح کا ہدیہ قبول کرتا ، نہ کھانا کھاتا ، صرف چائے کی گنجائش رکھی تھی ، میرا یہ طرز عمل محض اس لئے تھا کہ تبلیغ دین پر کوئی معاوضہ نہ ہو ، میں محض اﷲ کے لئے یہ کام کرنا چاہتاتھا ، ملازمت کی تنخواہ کا بھی میں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
حضرت مولانا سیّد عبد الحی صاحب علیہ الرحمہ نے امامت وخطابت کا معاملہ طے کرتے وقت ماہانہ تنخواہ ڈھائی سو روپئے مقرر کی تھی ، جس کو اہل میسور نے قبول کیا تھا ، اس کے علاوہ کسی اور طرح کا ہدیہ ونذرانہ مجھے منظور نہ تھا ۔ میرے اس طرز عمل کا اثر اہل میسور پر بہت خوشگوار پڑا ، لوگوں کااعتماد مجھے حاصل ہوا ، لوگ بڑی محبت سے پیش آتے ، مسائل پوچھتے ، جو کچھ کہتا اسے وقعت دیتے ، اس طریقۂ کار سے تقریر وخطابت کاوزن خاصا بڑھ گیا، مجھے اصل میں مدرسہ صدیقیہ کے لئے محنت کرنی تھی ، میں اس سلسلے میں مسلسل کدوکاوش کرتا رہا۔
تنخواہ میں ترمیم:
میسور کے ابتدائی ایام میرے لئے مالی لحاظ سے بہت سخت تھے ، گھر سے جو کچھ رقم قدرے قلیل لے کر آیا تھا ، وہ امروہہ میں ہی ختم ہوگئی تھی ، میسور کے لئے راستے کا کرایہ اور خرچ جو کچھ ملاتھا وہ میسور پہونچتے پہونچتے ختم ہوگیا ۔ تنخواہ ایک ماہ کے بعد ملنے والی تھی ، درمیان میں کسی نے پوچھا نہیں ، میری غیرت نے سوال کرنے کی بات تو الگ، تذکرہ کرنے کی اجازت نہ دی ، اب نہ کپڑا دھونے کے لئے صابن ،نہ گھر یاامروہہ خط لکھنے کے لئے پیسہ! مگر میں پیشانی پر شکن لائے بغیر مہینہ ختم ہونے کی مدت بخوشی گزار لے گیا، مہینہ ختم ہونے پر جب تنخواہ ملنے کا وقت آیا تو مسجد کے سکریٹری کے۔ نذیر احمد صاحب اور دو ممبران ابوبکر سیٹھ اور اقبال سیٹھ صاحبان تشریف لائے ،ان حضرات سے اتنی مدت میں ذرا بے تکلفی ہوگئی تھی ، ابوبکر سیٹھ نے معذرت کے لہجے میں کہنا شروع کیا کہ مولانا عبد الحی صاحب سے آپ کی تنخواہ کے متعلق جو گفتگو ہوئی تھی ، اس میں طے یہ ہوا تھا کہ آپ کی تنخواہ ڈھائی سو ماہانہ ہوگی ، مگر ہم لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کو ہم نباہ نہ پائیں گے ، اس لئے طے ہوا ہے کہ آپ کی