قاری صاحب کی سرکردگی میں پانچ چھ طلبہ کاقافلہ تیار ہوگیا ، چھوٹی لائن کی ٹرین سے مئو کا ٹکٹ لیاگیا ، مئو سے پھر دوسری ٹرین پکڑ کر بنارس جانا تھا ، قاری صاحب بہت خوش مزاج تھے ، راستے میں انھوں نے بچوں کی خوب دلداری کی ، طلبہ نے ان سے درخواست کی کہ وہ نعتیں سنائیں ، وہ بے تکلف تیار ہوگئے اور بنارس تک وقتاً فوقتاً نغمہ سرائی کرتے رہے ، قاری صاحب بہت خوش الحان تھے ، ڈبہ کے تمام مسافر کیا مسلم اور غیر مسلم سب ان کے گرویدہ ہوگئے۔
اس وقت جامعہ اسلامیہ مدن پورہ میں تھا ، وہیں ہم لوگ ٹھہرائے گئے ، غالباً ایک ہفتہ ہم لوگ ٹھہرے، پھر جب امتحان کا وقت آیا تو ہم لوگ دوبارہ بنارس لے جائے گئے، پھر وہاں سے الہ آباد گئے جہاں امتحانی مرکز تھا ۔
امتحان کی تیاری تو سرے سے ہوئی ہی نہ تھی ، کسی طرح امتحان کی کاپیاں لکھ دی گئیں ، یقین تھا کہ فیل ہوں گے مگر اپنے بارے میں مجھے یاد ہے کہ سکنڈ ڈویژن سے پاس ہوا ، اس ایک امتحان کے بعد الہ آباد بورڈ کا اور کوئی امتحان نہیں دیا۔
عربیت کا ذوق
گزرچکا ہے کہ عربی سوم کا پوار سال لہوولعب اور لایعنی کاموں کی نذر ہوگیا تھا ، سال کے آخر میں کتابوں کے مذاکرے میں جب دشواری کا سامنا ہوا تو تنبہ ہوا ، اس سال تعطیل میں رمضان شریف کے عشرۂ اخیرہ میں اعتکاف کیا ، اور اس اعتکاف میں عربیت پر خاصی محنت کی ۔ عربی چہارم میں آیاتو زندگی اور محنت کا آغاز تو ہوا، درسی کتابوں میں محنت ویکسوئی کی جو ترتیب بنانی تھی وہ تو بنی ہی! ساتھ ہی عربی تکلم وانشاء کے شوق نے طویل انگڑائی لی ، اس سال اردو کا مطالعہ قدرے کم کیا ، عربی کے مطالعہ کی مقدار بڑھادی تھی ، ساتھ ہی عربی تکلم کی مشق بھی شروع کردی تھی ۔اس وقت جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں عربی تکلم وانشاء کا نہ کوئی اہتمام تھا اور نہ ترغیب وتشویق تھی ، ایک میں تھا کہ عربی بولنے کا جنون میرے سر میں ہورہا تھا، اور ایک طالب علم عربی پنجم کا تھا ، یہ صاحب ایلیا ضلع بنارس کے رہنے والے