بہرحال چالیس دن پورے کرنے کے بعد جب جماعت کی واپسی ہونے لگی تومیں نے بنارس کا ٹکٹ بنوایا، اوروہیں اترگیا اس طرح میں بقرعید سے پہلے گھرآگیا، غالباً یہ جنوری ۱۹۷۱ء کی آخری دہائی تھی ،تاریخیں میرے پاس محفوظ نہیں ہیں اندازہ یہی ہے۔
۱۶؍مہینے گھرپر
حضرت سید احمد شہیدقدس سرہ کی سیرت کے مطالعے سے دل پر جواثر ہوا تھا ، چالیس دن کے تبلیغی دورے کے بعد وہ اثر اورگہرا اورپختہ ہوگیا،ان چالیس دنوں میں بجز اللہ ورسول اوردین وعظمت دین کے اورکوئی ذکر وتذکرہ نہ تھا اس کاطبیعت پر خوشگوار اثر پڑا، گھر آکر میں قطعی یکسوہوگیا، تبتل کی سی کیفیت پیدا ہوگئی، عملی طورپرحفظ قرآن کامشغلہ شروع ہوگیاتھا کوئی پوچھتاکہ کیاکررہے ہو، توجواب دیناآسان تھا کہ قرآن کریم حفظ کررہاہوں جب تک اس کی تکمیل نہ ہوگی کوئی دوسراسوال نہ پیداہوگا۔
دیوبند کے حادثے کی وجہ سے محرومی،بدنامی اورلعن وطعن کے تیروں سے قلب تو چھلنی تھاہی، بزرگوں کی سیرت اورچالیس دن کی یکسوئی نے دنیاسے دل سرد کردیا، خلوت سے نہایت درجہ محبت اوررغبت ہوگئی تھی قرآن کریم کے حفظ کی مشغولیت نے اوریکسو بنادیا، اس وقت جونظام الاوقات بنایاتھا ،بلکہ بن گیاتھا وہ کچھ اس طرح تھا۔
رات کو دوبجے کے بعد اٹھ جانا،جتنا حفظ ہوچکاتھا اس کا کچھ حصہ تہجد میں پڑھنا،پھر بقدر ربع پارہ (ایک پاؤ) یادکرنا ،فجر کی نماز پڑھ کر اسے پختہ کرنا اور سات بجے استاذ محترم حضرت حافظ احمدکریم صاحب علیہ الرحمہ کوان کے گھر جاکر سنانا۔
قرآن سناکر آتا تو گھر کے کام میں چارگھنٹہ مشغول رہتا،ظہر کی نمازکے بعدپھر قرآن کادورکرتا اوردوسری کتابوں کامطالعہ کرتا،عصر کی نمازکے بعد استاذ محترم حضرت مولانا عبدالستار صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی خدمت میں حاضری دیتا، مغرب کی نماز کے بعد گاؤں کے نوجوان حفاظ جن کی تعداد دس بارہ تھی، کوترجمہ قرآن کریم پڑھاتا اوریادکراتا ،عشاء کی