پٹھان پورے کی جامع مسجد میں آگیا رکشے والے کووہ پچاس پیسے میں نے دیئے اس نے بغیر چوں وچراکئے لے کر رکھ لئے اورچلاگیا۔
دیوبند میں
میراقیام مستقل جامع مسجدمیں ہوگیا،مولوی طاہر صاحب بھی وہیں تھے، بعد میں انھیں ایک نابینا کتب فروش حافظ محمد علی صاحب اپنے گھر لے گئے ، میں جامع مسجد میں رہ پڑا، اس وقت جامع مسجد کے امام مولوی مظہر عالم مظفر پوری(اس وقت کے مولوی مظہر عالم صاحب اب مدسہ عزیزیہ میراروڈ بمبئی کے مہتمم مولانا مظہر عالم صاحب ہیں ) تھے وہ دارالعلوم سے دورۂ حدیث کی تکمیل کرکے کسی اورشعبے میں زیر تعلیم تھے اوراس کے موذن مولوی سمیرالدین تھے مولوی مظہرعالم صاحب مسجد کے کمرے میں رہتے نہیں تھے، مولوی سمیر الدین رہتے تھے کمرہ خاصابڑاتھا، بڑی خوشی سے مجھے بھی وہیں رہنے کی اجازت دیدی، دوایک وقت مہمانی کی اورمجھے کھلایا اس کے بعد میں کھانے کے وقت وہاں سے نکل جاتا کئی وقت فاقے میں گزرگئے بعض طلبہ کبھی کبھی ہوٹل میں چائے پلادیتے جب زیادہ تنگ ہواتواپنے محبوب اوربے تکلف ساتھی مولوی عامرمبارک پوری(مولوی محمدعامر مرحوم مبارک پور کے زمانے سے میرے بہت مخلص اورمحبوب ساتھی تھے ،فراغت کے بعد کچھ دنوں جامعہ عربیہ احیاء العلوم کے نائب ناظم بھی رہے،غالباً ۱۹۸۳ء میں انتقال کرگئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون) سے میں نے قرض مانگا، ان کا بھی اس وقت ہاتھ خالی تھا، صرف چھ روپئے تھے انھوں نے وہ مجھے دیدیئے تب میں نے شکم سیرہوکر کئی دن کے بعد کھاناکھایا،دارالعلوم کے اندرداخل ہونے کی اجازت نہ تھی ، نمازپڑھنے دارالعلوم کی مسجد میں جاسکتے تھے۔
کچھ دنوں کے بعد مولوی عزیزالرحمن( ان کا بھی اخراج ہواتھا اب یہ بمبئی کے مفتی ہیں )فتح پوری بھی آگئے پھر آہستہ آہستہ کئی ایک جمع ہوگئے مولوی عزیزالرحمٰن صاحب تو میرے ساتھ جامع مسجد پٹھان پورے میں رہے اب ہم لوگوں کی مجلس جمنے لگی،امتحان سالانہ کا وقت آیا تومیں نے ہدایہ اخیرین کاتکرار بھی کرایا یہ تکرار مدنی مسجد میں ہوتاتھا۔