بریلوی فتنہ:
میں غالباً ربیع الآخر ۱۳۹۲ھ کی کسی تاریخ میں میسور پہونچا تھا میری تقریریں مسلسل ہورہی تھیں ، میسور شہر میں مَیں اکیلا مولوی تھا ، شہرت پھیلتی جارہی تھی ، تبلیغی جماعت کو بھی میری وجہ سے تقویت حاصل تھی،یعنی کام کی فضا ہموار ہورہی تھی ، کہ ایک فتنہ نے سر ابھارا۔ میسور میں بریلویت کازیادہ اثر تو نہ تھا ، لیکن بدعات کازور تھا ، اور بدعت کو بریلویت سے بڑی مناسبت ہے ، اور بریلویت بھی بدعت کو تلاش کرکرکے اسے مستحکم کرتی ہے ، بریلویت کا مزاج جارحانہ ہے ، اس میں اعتدال وتوازن کا فقدان ہے ، جس نے اس سے اختلاف کیا ، وہ سرے سے کافر ہے ، اور جو اس کے موافق ہے وہ ہر فسق وفجور کے بعد عشق مصطفی میں ڈوب کر مومن کامل ہے۔
اﷲ جانے کیا ہوا کہ کچھ لوگ بمبئی سے مشہور جنگجو اور انتہاپسند بریلوی عالم مولوی حشمت علی کے بھتیجے مولوی منصور علی کوجوکہ مولوی محبوب علی کے بیٹے ہیں ، بلالائے ،یا یہ کہ وہ خود سے آگئے ، اس کی مجھے تحقیق نہیں ہے ، ان کے جلسے شہر میں جابجا ہونے لگے ، انھوں نے علماء دیوبند کے خلاف وہ آگ اگلنی شروع کی کہ الامان والحفیظ ۔ بد زبانی ، گالی گلوج، بہتان طرازی اور اشتعال انگیزی کی کوئی حد نہ تھی جس کو وہ پھلانگ نہ گئے ہوں ، ایسی بدزبانی اور اشتعال انگیزی کا مجھے تجربہ نہ تھا ، حد یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ہر تقریرمیں یہ کہنا شروع کیا کہ دیوبندیوں کی مسجد ،مسجد نہیں ہے ، اس میں پاخانہ کرو، پیشاب کرو ، دیوبندیوں کے کنویں میں کتا مارکر، بلی مارکر ڈال دوتو ثواب کے مستحق ہوگے۔
ایک ہفتہ تک ان کی شعلہ بار تقریریں ہوتی رہیں ، پورا شہر آگ کی بھٹی بن گیا ، مسلمانوں کا ماحول ومعاشرہ آگ کی لپیٹ میں آگیا ، تبلیغی جماعت والوں کولوگوں نے مسجدوں سے نکالنے بھگانے کی مہم چلائی ، فتنے اور سر پھٹول کی گرم بازاری ہوگئی ، سنجیدہ حضرات پریشان ہوگئے ، مجھ سے آآکر کہنے لگے کہ اس شخص سے مناظرہ کرنا چاہئے ، میرا ذوق