میسورکی بعض یادیں
ایک نصیحت خیز مشاہدہ:
میسورکی آب وہوا بہت عمدہ ہے ، صبح کا موسم تو اتنا سہانا ہوتا ہے کہ دل کی کلی کھل جاتی ہے، مجھے صبح کو چہل قدمی سے کوئی خاص مناسبت نہیں ہے ، لیکن میسور کا سہانا موسم مجھے اکثر باہر کھینچ لے جاتا۔ صبح کی اس تفریح میں روزانہ ایک عجیب منظر دیکھتا، جس کا دل پر بہت اثر ہوتا اور میں دیر تک سوچتا رہتا۔
میں دیکھتا کہ ایک آدمی اپنے گھر سے کپڑے کی ایک جھولی کندھے سے لٹکائے نکلتا ، اس کی تھیلی میں ’’ بوندیا‘‘ ایک خاص قسم کی مٹھائی ہوتی ، اسے دیکھتے ہی ہر طرف سے کووں کی یلغار ہوجاتی ، یہ کوے اڑتے ہوئے اس کے کندھے پر ، سرپر بیٹھ جاتے ، کتنے کوے اس کے دامن اور آستین پکڑکر لٹک جاتے اور زیادہ تر اڑتے ہوئے اس کے سر پر چھتری بنائے رہتے ، وہ تھیلی میں ہاتھ ڈالتا اور ایک مٹھی بوندی نکالتا اور سڑک پر پھینک دیتا ، تمام کوے سڑک پر آجاتے ، ایک ایک دانہ اٹھاتے اور پھر اس کے بدن پر بیٹھ جاتے اور سر کے اوپر اڑنے لگ جاتے ، وہ مسلسل چلتا رہتا ،ا ور ہر تھوڑی دور پر بوندیاں پھینکتا رہتا ، تقریباً ایک کیلو میٹر چلتا پھر واپس آتا ، کوے اس کے ساتھ ساتھ ہوتے ، جب وہ اپنے گھر میں قدم رکھتا ،تو کوے اپنی اپنی راہ لیتے ۔ میں یہ حیرتناک منظر روزانہ دیکھتا اور سوچتا کہ محبت اور احسان میں کتنی طاقت ہے کہ ایک وحشی تر پرندہ جو ایک انسان کی آہٹ سے بھاگتا ہے ، کس طرح گرویدہ ہوکر بدن پر ٹوٹا پڑتا ہے، کوا بھی احسان کو پہچانتا ہے ۔ انسان جو حق تعالیٰ کے احسان میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا ہے ، اور اس میں گرویدگی اور محبت کی استعداد بھی ہر