(۳)
مدرسہ احیاء العلوم مبارک پورکے چھوٹے سے ماحول سے نکل کر جب دیوبند کے بڑے ماحول میں پہونچاتو اس سے متاثر ہوکر زندگی میں بعض خوشگوار تبدیلیوں کا خیال آیا، دینی ذوق گوکہ آغاز ہی سے تھا ، مگر بچپن اور عنفوان شباب کی لااُبالیوں اور مختلف صحبتوں اور مشاغل نے اس میں سستی اور غفلت کا زنگ چڑھادیا تھا ، اس کا احساس کبھی کبھی ہوتاتھا ، مگر پانی کے بلبلے کی طرح جلد ہی بیٹھ جاتا تھا ، دار العلوم دیوبند میں بعض نیک اور متقی طلبہ کو دیکھ کر اور ان کی صحبت میں رہ کر دینی ولولہ جاگا۔
ضلع بلند شہر کے ایک طالب علم مولوی عباد الرحمن سے میں خاص طور سے متاثر ہوا، ان سے تقریب ملاقات یاد نہیں ، اتنا یاد ہے کہ صف ثانوی کے دوساتھیوں مولوی عزیزالرحمن اور مولوی محمد اسلام دمکوی ( استاذ دار العلوم وقف) کے واسطے سے ملاقات ہوئی ۔ مولوی محمد اسلام انھیں کے کمرے میں رہتے تھے ، اور مولوی عزیز الرحمن کئی کتابوں میں ان کے ہم سبق تھے ، وہ بہت دیندار اور پرہیزگار تھے ، طالب علمی کی شوخیوں سے دور ، نوجوانی کی غفلت سے نفور ، سنجیدہ اور متین طالب علم تھے ، اوقات کے پابند ،غلط صحبتوں سے گریزاں ،مگر خوش مزاج ، سبک روح ، ان سے مل کرمیرے اندر کی دینداری نے کروٹ لی ، کسی سبق میں میراان کا ساتھ نہ تھا، مگر ان کی تدین وتقویٰ کی وجہ سے میں نے اپنے دل میں ان کی طرف بڑی کشش پائی ۔ ان سے تعلقات اور دوستی کی بنیاد پڑگئی ، ان کی باتوں سے اور ان کی صحبت سے میرے اندر ایک خواشگوار تبدیلی آئی ، شوخی کی جگہ سنجیدگی ومتانت ، لاپرواہی کی جگہ نظم واہتمام ، اور شرارت کی جگہ شرافت کا خیال دل میں جمنے لگا۔ چند دنوں کی رفاقت کے بعد ہم دونوں نے باہم یہ معاملہ طے کیا کہ جو کوئی دوسرے میں کوئی غلطی دیکھے ، تواسے ٹوک کر متنبہ کردے ، شریعت کی اصطلاح میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عہد باندھا گیا۔
ایک صاحب نے ہمارا یہ باہمی عہد سنا توکہنے لگے ، کہ دودوستوں نے باہم اسی