قاری صاحب نے بھی قلم رکھ دیا ہے ، اور زبانی مخاطبہ پر اکتفا کرتے ہیں ، حالانکہ اگر وہ لکھیں تو ادب عالیہ کا شہ پارہ وجود میں آئے۔
میں کہہ سکتاہوں کی ان کی ذہانت وذکاوت کے بعد کسی کی ذہانت کا میرے اوپر اثر نہیں پڑا، ان کا ذکر میری کہانی میں باربار آئے گا کیونکہ وہ جب سے میری زندگی میں داخل ہوئے کبھی ان سے تعلق میں کمزوری نہیں آئی، میں کہیں رہاہوں وہ کہیں رہے ہوں ہم دونوں ہمیشہ قریب رہے ،اب بھی ان سے تعلق ومحبت کا وہی رنگ ہے جو پہلے تھا بلکہ اورگہرااورمزید پختہ !
دارالعلوم کے سالانہ امتحانات ہوگئے،چھٹی ہوگئی، طلبہ اپنے اپنے وطن چلے گئے، مگرجو چند نفوس مدرسے سے باہر کردیئے گئے تھے وہ کہاں جاتے؟ وہ خاک دیوبند سے چمٹے رہے ، حافظ صاحب بھی کہیں نہیں گئے حالانکہ وہ رمضان شریف میں تراویح پڑھانے کہیں جاتے تھے ، مگر میرا خیال ہے کہ اس رمضان میں میری وجہ سے وہ کہیں نہیں گئے، رمضان میں حافظ صاحب نے کسی نئے حافظ کے پیچھے تراویح کی سماعت کی،میں مدنی مسجد میں تراویح پڑھتا رہا،جہاں مولاناارشد میاں اورمولانا قاری محمدعثمان صاحب تراویح پڑھاتے تھے ،دس رکعت میں ایک پارہ ایک صاحب، پھر وہی پارہ دوسری دس رکعت میں دوسرے صاحب!
عید کی نماز دیوبند کی وسیع وعریض عیدگاہ میں حکیم الاسلام مولاناقاری محمدطیب صاحب اقتداء میں اداکی گئی،بہت بڑامجمع تھاایک توعیدگاہ خود بہت بڑی لیکن عیدگاہ کے باہرخالی زمینوں اور کھیتوں میں اس سے زیادہ لوگ تھے،جتنے عیدگاہ میں تھے۔
عیدکی نمازمیں ایک لطیفہ
ہم چند طلبہ عیدگاہ میں ذراسویرے پہونچے،ٹھیک امام کے مصلے کے قریب صف اول میں جگہ مل گئی،پھر لوگ آتے گئے اورعید گاہ بھرتی گئی نماز کا وقت ہوتے ہوتے عیدگاہ بھی بھر گئی اس کے آس پاس کی خالی زمینیں بھی بھر گئیں ،متعدد اکابر علماء موجودتھے،دیوبندمیں اس وقت امامت کیلئے شخصیت کا انتخاب موذن کیاکرتے تھے،وہ جن بزرگ سے درخواست کرتے وہ امامت کیلئے آگئے بڑھتے، جمعہ میں بھی یہی دیکھا، عیدکی نمازمیں بھی یہی دیکھا۔ موذن نے